Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 28
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ : البتہ اگر تو بڑھائے گا اِلَيَّ : میری طرف يَدَكَ : اپنا ہاتھ لِتَقْتُلَنِيْ : کہ مجھے قتل کرے مَآ اَنَا : میں نہیں بِبَاسِطٍ : بڑھانے والا يَّدِيَ : اپنا ہاتھ اِلَيْكَ : تیری طرف لِاَقْتُلَكَ : کہ تجھے قتل کروں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ رَبَّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اگرتُو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اُٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اُٹھاوٴں گا،49 میں اللہ ربّ العا لمین سے ڈرتا ہوں
سورة الْمَآىِٕدَة 49 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے آئے گا تو میں ہاتھ باندھ کر تیرے سامنے قتل ہونے کے لیے بیٹھ جاؤں گا اور مدافعت نہ کروں گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو میرے قتل کے درپے ہوتا ہے تو ہو، میں تیرے قتل کے درپے نہ ہوں گا۔ تو میرے قتل کی تدبیر میں لگنا چاہے تو تجھے اختیار ہے، لیکن میں یہ جاننے کے بعد بھی کہ تو میرے قتل کی تیاریاں کر رہا ہے، یہ کوشش نہ کروں گا کہ پہلے میں ہی تجھے مار ڈالوں۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی شخص کا اپنے آپ کو خود قاتل کے آگے پیش کردینا اور ظالمانہ حملہ کی مدافعت نہ کرنا کوئی نیکی نہیں ہے۔ البتہ نیکی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص میرے قتل کے درپے ہو اور میں جانتا ہوں کہ وہ میری گھات میں لگا ہوا ہے، تب بھی میں اس کے قتل کی فکر نہ کروں اور اسی بات کو ترجیح دوں کہ ظالمانہ اقدام اس کی طرف سے ہو نہ کہ میری طرف سے۔ یہی مطلب تھا اس بات کا جو آدم ؑ کے اس نیک بیٹے نے کی۔
Top