Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ کی نظرِ عنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی،61 اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
سورة الْمَآىِٕدَة 61 اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کٹنے کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنے نفس کو چوری سے پاک کر کے اللہ کا صالح بندہ بن جائے وہ اللہ کے غضب سے بچ جائے گا، اور اللہ اس کے دامن سے اس داغ کو دھو دے گا۔ لیکن اگر کسی شخص نے ہاتھ کٹوانے کے بعد بھی اپنے آپ کو بدنیتی سے پاک نہ کیا اور وہی گندے جذبات اپنے اندر پرورش کیے جن کی بنا پر اس نے چوری کی اور اس کا ہاتھ کاٹا گیا، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہاتھ تو اس کے بدن سے جدا ہوگیا مگر چوری اس کے نفس میں بدستور موجود رہی، اس وجہ سے وہ خدا کے غضب کا اسی طرح مستحق رہے گا جس طرح ہاتھ کٹنے سے پہلے تھا۔ اسی لیے قرآن مجید چور کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اللہ سے معافی مانگے اور اپنے نفس کی اصلاح کرے۔ کیونکہ ہاتھ کاٹنا تو انتظام تمدن کے لیے ہے۔ اس سزا سے نفس پاک نہیں ہو سکتا۔ نفس کی پاکی صرف توبہ اور رجوع الی اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ نبی ﷺ کے متعلق احادیث میں مذکور ہے کہ ایک چور کا ہاتھ جب آپ کے حکم کے مطابق کاٹا جا چکا تو آپ ﷺ نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس سے فرمایا قل اسْتغفر اللہ واتوب الیہ۔”کہہ میں خدا سے معافی چاہتا ہوں اور اس سے توبہ کرتا ہوں“۔ اس نے آپ ﷺ کی تلقین کے مطابق یہ الفاظ کہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اَلّٰھُمَّ تُبْ عَلَیْہِ۔”خدایا اسے معاف فرما دے“۔
Top