Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 79
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ : ایک دوسرے کو نہ روکتے تھے عَنْ : سے مُّنْكَرٍ : برے کام فَعَلُوْهُ : وہ کرتے تھے لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا كَانُوْا : جو وہ تھے يَفْعَلُوْنَ : کرتے
انہوں نے ایک دُوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، 102 بُرا طرز عمل تھا جو اُنہوں ے اختیار کیا
سورة الْمَآىِٕدَة 102 ہر قوم کا بگاڑ ابتداءً چند افراد سے شروع ہوتا ہے۔ اگر قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے تو رائے عام ان بگڑے ہوئے افراد کو دبائے رکھتی ہے اور قوم بحیثیت مجموعی بگڑنے نہیں پاتی۔ لیکن اگر قوم ان افراد کے معاملہ میں تساہل شروع کردیتی ہے اور غلط کار لوگوں کو ملامت کرنے کے بجائے انہیں سوسائیٹی میں غلط کاری کے لیے آزاد چھوڑ دیتی ہے، تو پھر رفتہ رفتہ وہی خرابی جو پہلے چند افراد تک محدود تھی، پوری قوم میں پھیل کر رہتی ہے۔ یہی چیز تھی جو آخر کار بنی اسرائیل کے بگاڑ کی موجب ہوئی۔ حضرت داؤد ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی زبان سے جو لعنت بنی اسرائیل پر کی گئی اس کے لیے ملاحظہ ہو زبور 10 و 50 اور متی 23۔
Top