Tafheem-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 10
قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَۙ
قُتِلَ : مارے گئے الْخَرّٰصُوْنَ : اٹکل دوڑانے والے
مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے، 8
سورة الذّٰرِیٰت 8 ان الفاظ میں قرآن مجید ایک اہم حقیقت پر انسان کو متنبہ کر رہا ہے۔ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی اندازہ کرنا یا تخمینہ لگانا، دنیوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں تو کسی حد تک چل سکتا ہے، اگرچہ علم کا قائم مقام پھر بھی نہیں ہو سکتا، لیکن اتنا بڑا بنیادی مسئلہ کہ ہم اپنی پوری زندگی کے اعمال کے لیے کسی کے سامنے ذمہ دار و جواب دہ ہیں یا نہیں، اور ہیں تو کس کے سامنے، کب اور کیا جوابدہی ہمیں کرنی ہوگی، اور اس جوابدہی میں کامیابی و ناکامی کے نتائج کیا ہوں گے، یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے متعلق آدمی محض اپنے قیاس و گمان کے مطابق ایک اندازہ قائم کرلے اور پھر اسی جوئے کے داؤں پر اپنا تمام سرمایہ حیات لگا دے۔ اس لیے کہ یہ اندازہ اگر غلط نکلے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آدمی نے اپنے کو بالکل تباہ و برباد کرلیا۔ مزید براں یہ مسئلہ سرے سے ان مسائل میں سے ہے ہی نہیں جن کے بارے میں آدمی محض قیاس اور ظن وتخمین سے کوئی صحیح رائے قائم کرسکتا ہو۔ کیونکہ قیاس ان امور میں چل سکتا ہے جو انسان کے دائرہ محسوسات میں شامل ہوں، اور یہ مسئلہ ایسا ہے جس کا کائی پہلو بھی محسوسات کے دائرے میں نہیں آتا۔ لہٰذا یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قیاسی اندازہ صحیح ہو سکے۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر آدمی کے لیے ان ماورائے حس و ادراک مسائل کے بارے میں رائے قائم کرنے کی صحیح صورت کیا ہے، تو اس کا جواب قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ دیا گیا ہے، اور خود اس سورة سے بھی یہی جواب مترشح ہوتا ہے کہ (1) انسان براہ راست خود حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، (2) حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی ذریعہ سے دیتا ہے، اور (3) اس علم کی صحت کے متعلق آدمی اپنا اطمینان اس طریقہ سے کرسکتا ہے کہ زمین اور آسمان اور خود اس کے اپنے نفس میں جو بیشمار نشانیاں موجود ہیں ان پر غائر نگاہ ڈال کر دیکھے اور پھر بےلاگ طرز پر سوچے کہ یہ نشانیاں آیا اس حقیقت کی شہادت دے رہی ہیں جو نبی بیان کر رہا ہے، یا ان مختلف نظریات کی تائید کرتی ہیں جو دوسرے لوگوں نے اس کے بارے میں پیش کیے ہیں ؟ خدا اور آخرت کے متعلق علمی تحقیق کا یہی ایک طریقہ ہے جو قرآن میں بتایا گیا ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی اپنے قیاسی اندازوں پر چلا وہ مارا گیا۔
Top