Tafheem-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 13
یَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ یُفْتَنُوْنَ
يَوْمَ هُمْ : اس دن وہ عَلَي النَّارِ : آگ پر يُفْتَنُوْنَ : الٹے سیدھے پڑینگے
وہ اُس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے  جائیں گے۔ 10
سورة الذّٰرِیٰت 10 کفار کا یہ سوال کہ روز جزاء کب آئے گا، علم حاصل کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ طعن اور استہزاء کے طور پر تھا، اس لیے ان کو جواب اس اندازے سے دیا گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کو بد کرداریوں سے باز نہ آنے کی نصیحت کرتے ہوئے اس سے کہیں کہ ایک روز ان حرکات کا برا نتیجہ دیکھو گے، اور وہ اس پر ایک ٹھٹھا مار کر آپ سے پوچھے کہ حضرت، آخر وہ دن کب آئے گا ؟ ظاہر ہے کہ اس کا یہ سوال اس برے انجام کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے نہیں بلکہ آپ کی نصیحتوں کا مذاق اڑانے کے لیے ہوگا۔ اس لیے اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ وہ اس روز آئے گا جب تمہاری شامت آئے گی۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آخرت کے مسئلے پر اگر کوئی منکر آخرت سنجیدگی کے ساتھ بحث کر رہا ہو تو وہ اس کے موافق و مخالف دلائل پر تو بات کرسکتا ہے، مگر جب تک اس کا دماغ بالکل ہی خراب نہ ہوچکا ہو، یہ سوال وہ کبھی نہیں کرسکتا کہ بتاؤ، وہ آخرت کس تاریخ کو آئے گی۔ اس کی طرف سے یہ سوال جب بھی ہوگا طنز اور تمسخر کے طور پر ہی ہوگا۔ اس لیے کہ آخرت کے آنے کی تاریخ بیان کرنے اور نہ کرنے کا کوئی اثر بھی اصل بحث پر نہیں پڑتا۔ کوئی شخص نہ اس بنا پر آخرت کا انکار کرتا ہے کہ اس کی آمد کا سال، مہینہ اور دن نہیں بتایا گیا ہے، اور نہ یہ سن کر اس کی آمد کو مان سکتا ہے کہ وہ فلاں سال فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو آئے گی۔ تاریخ کا تعین سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی منکر کو اقرار پر آمادہ کر دے، کیونکہ اس کے بعد پھر یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ دن آنے سے پہلے آخر کیسے یہ یقین کرلیا جائے کہ اس روز واقعی آخرت برپا ہوجائے گی۔
Top