Tafheem-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 42
مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِؕ
مَا : نہ تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ : چھوڑتی تھی کسی چیز کو اَتَتْ عَلَيْهِ : آئی جس پر اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ : مگر اس نے کردیا اس کو بوسیدہ ہڈیوں کی طرح
کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا۔39
سورة الذّٰرِیٰت 39 اس ہوا کے لیے لفظ عقیم استعمال ہوا ہے جو بانجھ عورت کے لیے بولا جاتا ہے، اور لغت میں اس کے اصل معنی یابس (خشک) کے ہیں۔ اگر اسے لغوی معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایسی سخت گرم و خشک ہوا تھی کہ جس چیز پر سے وہ گزر گئی اسے سکھا کر رکھ دیا۔ اور اگر اسے محاورے کے مفہوم میں لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ بانجھ عورت کی طرح وہ ایسی ہوا تھی جو اپنے اندر کوئی نفع نہ رکھتی تھی۔ نہ خوشگوار تھی، نہ بارش لانے والی، نہ درختوں کو بار آور کرنے والی، اور نہ ان فائدوں میں سے کوئی فائدہ اس میں تھا جن کے لیے ہوا کا چلنا مطلوب ہوتا ہے۔ دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ یہ صرف بےخیر اور خشک ہی نہ تھی بلکہ نہایت شدید آندھی کی شکل میں آئی تھی جس نے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پٹخ دیا، اور یہ مسلسل آٹھ دن اور سات راتوں تک چلتی رہی، یہاں تک کہ قوم عاد کے پورے علاقے کو اس نے تہس نہس کر کے رکھ دیا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورة حٰم السجدہ، حواشی نمبر 20۔ 21۔ الاحقاف، حواشی نمبر 25 تا 28
Top