Tafheem-ul-Quran - At-Tur : 44
وَ اِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا كِسْفًا : وہ دیکھیں ایک ٹکڑا مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے سَاقِطًا : گرنے والا يَّقُوْلُوْا : وہ کہیں گے سَحَابٌ : بادل ہیں مَّرْكُوْمٌ : تہ بہ تہ
یہ لوگ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے ہوئے دیکھ لیں تو کہیں گے یہ بادل ہیں جو اُمڈے چلے آرہے ہیں 36
سورة الطُّوْر 36 اس ارشاد سے مقصود ایک طرف سرداران قریش کی ہٹ دھرمی کو بےنقاب کرنا، اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی دینا ہے۔ حضور اور صحابہ کرام کے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے ان کو نبوت محمدیہ کی صداقت معلوم ہوجائے۔ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ خواہ کوئی معجزہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، بہرحال یہ اس کی تاویل کر کے کسی نہ کسی طرح اپنے کفر پر جمے رہنے کا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے، کیونکہ ان کے دل ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی ان کی اس ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً سورة انعام میں فرمایا " اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کردیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کردیتے تب بھی یہ ماننے والے نہ تھے "۔ (آیت 111)۔ اور سورة حجر میں فرمایا " اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے، پھر بھی یہ لوگ یہی کہتے کہ ہماری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہیں، بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے " (آیت۔ 15
Top