Tafheem-ul-Quran - At-Tur : 47
وَ اِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِنَّ لِلَّذِيْنَ : اور بیشک ان لوگوں کے لیے ظَلَمُوْا : جنہوں نے ظلم کیا عَذَابًا : عذاب ہے دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کے علاوہ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ : لیکن ان میں سے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور اس وقت کے آنے سے پہلے بھی ظالموں کے لیے ایک عذاب ہے ،مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں۔ 37
سورة الطُّوْر 37 یہ اسی مضمون کا اعادہ ہے جو سورة السجدہ، آیت 21 میں گزر چکا ہے کہ " اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائیں "۔ یعنی دنیا میں وقتاً فوقتاً شخصی اور قومی مصیبتیں نازل کر کے ہم انہیں یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ اوپر بالا تر طاقت ان کی قسمتوں کے فیصلے کر رہی ہے اور کوئی اس کے فیصلوں کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ مگر جو لوگ جہالت میں مبتلا ہیں انہوں نے نہ پہلے کبھی ان واقعات سے سبق لیا ہے نہ آئندہ کبھی لیں گے۔ وہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کے معنی نہیں سمجھتے، اس لیے ان کی ہر وہ تاویل کرتے ہیں جو حقیقت کے فہم سے ان کو اور زیادہ دور لے جانے والی ہو، اور کسی ایسی تاویل کی طرف ان کا ذہن کبھی مائل نہیں ہوتا جس سے اپنی دہریت یا اپنے شرک کی غلطی ان پر واضح ہوجائے۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمائی ہے کہ ان المنافق اذا مرض ثم اعفی کان کالبعیر عقلہ اھلہ ثم ارسلوہ فَلَمْ یدر لِمَ عقلوہ ولم یدر لِمَ ارسلوہ۔ (ابو داؤد، کتاب الجنائز) یعنی " منافق جب بیمار پڑتا ہے اور پھر اچھا ہوجاتا ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالکوں نے باندھا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں باندھا ہے اور جب کھول دیا تو وہ کچھ نہ سمجھا کہ کیوں کھول دیا ہے۔ " (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ 45۔ النمل، حاشیہ 66،۔ العنکبوت، حاشیہ 72۔ 73
Top