Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - An-Najm : 18
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
لَقَدْ رَاٰى
: البتہ تحقیق اس نے دیکھیں
مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ
: اپنے رب کی نشانیوں میں سے
الْكُبْرٰى
: بڑی بڑی
اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔
14
سورة النَّجْم
14
یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ اس کی عظیم الشان آیات کو دیکھا تھا۔ اور چونکہ سیاق وسباق کی رو سے یہ دوسری ملالات (ملاقات) بھی اسی ہستی سے ہوئی تھی جس سے پہلی ملاقات ہوئی، اس لیے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ افق اعلیٰ پر جس کو آپ نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا وہ بھی اللہ نہ تھا، اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جس کو دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا۔ اگر آپ نے ان مواقع میں سے کسی موقع پر بھی اللہ جل شانہ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی بڑی بات تھی کہ یہاں ضرور اس کی تصریح کردی جاتی حضرت موسیٰ کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی درخواست کی تھی اور انہیں جواب دیا گیا تھا لَنْ تَرَانِیْ ، " تم مجھے نہیں دیکھ سکتے " (المائدہ
143
)۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ شرف، جو حضرت موسیٰ کو عطا نہیں کیا گیا تھا، رسول کریم ﷺ کو عطا کردیا جاتا تو اس کی اہمیت خود ایسی تھی کہ اسے صاف الفاظ میں بیان کردیا جاتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ حضور نے اپنے رب کو دیکھا تھا، بلکہ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے سورة بنی اسرائیل میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لیے لے گئے تھے کہ " اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں "۔ (لِنُرِیَہ مِنْ ایَٰاتِنَا) ، اور یہاں سدرۃ المنتہیٰ پر حاضری کے سلسلے میں بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ " اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں " (لَقَدْ رَایٰ مِنْ ایٰتِ رَبِّہِ الْکُبْریٰ)۔ ان وجوہ سے بظاہر اس بحث کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں مواقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا یا جبریل ؑ کو ؟ لیکن جس وجہ سے یہ بحث پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر احادیث کی روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ذیل میں ہم ترتیب وار ان احادیث کو درج کرتے ہیں جو اس سلسلے میں مختلف صحابہ کرام سے منقول ہوئی ہیں۔ (
1
)۔ حضرت عائشہ کی روایات بخاری، کتاب التفسیر میں حضرت مَسْروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے عرض کیا، " اماں جان، کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ " انہوں نے جواب دیا " تمہاری اس بات سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ تم یہ کیسے بھول گئے کہ تین باتیں ایسی ہیں جن کا اگر کوئی شخص دعویٰ کرے تو جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ " (ان میں سے پہلی بات حضرت عائشہ نے یہ فرمائی کہ) " جو شخص تم سے یہ کہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے "۔ پھر حضرت عائشہ نے یہ آیتیں پڑھیں لا تُدْرِکُہ الْاَبْصَارُ (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں) ، اور مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیاً اَوْ مِنْ وَّرَائٍ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیْ بِاِذْنِہ مَا یَشآءُ (کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر، یا پردے کے پیچھے سے، یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ وہ چاہے)۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا " لیکن رسول اللہ ﷺ نے جبریل ؑ کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا " اس حدیث کا ایک حصہ بخاری، کتاب التوحید، باب
4
میں بھی ہے۔ اور کتاب بدء الخلق میں مسروق کی جو روایت امام بخاری نے نقل کی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہوگا ثُمَّ دَنیٰ فَتَدَلّیٰ ، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ ؟ اس پر انہوں نے فرمایا " اس سے مراد جبریل ہیں۔ وہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے، مگر اس موقع پر وہ اپنی اصلی شکل میں آپ کے پاس آئے اور سارا افق ان سے بھر گیا۔ " مُسلم، کتاب الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہیٰ میں حضرت عائشہ سے مسروق کی یہ گفتگو زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے حضرت عائشہ نے فرمایا " جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افترا کرتا ہے "۔ مسروق کہتے ہیں کہ میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ یہ بات سن کر میں اٹھ بیٹھا اور میں نے عرض کیا، ام المومنین جلدی نہ فرمایئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وَلَقَدْ رَاٰہُ بالْاُفُقِ الْمْبِیْنِ ؟ اور لَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ ﷺ سے اس معاملے کو دریافت کیا تھا۔ حضور نے فرمایا انما ھو جبریل علیہ السلام، لم ارہ علیٰ صورتہ التی خلق علیھا غیرھاتین المرتین، رایتہ منھبطا من السمآء سادّا عظم خلقہ ما بین السماء والارض۔ " وہ تو جبریل ؑ تھے۔ میں نے ان کو ان کی اس اصلی صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے، ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا۔ ان دو مواقع پر میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی "۔ ابن مَرْدُوْیہ نے مسروق کی اس روایت کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے وہ یہ ہیں " حضرت عائشہ نے فرمایا " سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ ﷺ سے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ حضور نے جواب دیا نہیں، میں نے تو جبریل کو آسمان سے اترتے دیکھا تھا "۔ (
2
) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات بخاری، کتاب التفیسر، مسلم کتاب الایمان اور ترمذی ابواب التفسیر میں زِرّ بن حُبَیش کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ کی تفسیر یہ بیان فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریل ؑ کو اس صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے۔ مسلم کی دوسری روایات میں مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَایٰ اور لَقَدْ رَایٰ مِنْ ایَٰاتِ رَبِّہَ الْکُبْریٰ کی بھی یہی تفسیر زر بن حبیش نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے۔ مسند احمد میں ابن مسعود ؓ کی یہ تفسیر زرّ بن حبیش کے علاوہ عبد الرحمٰن بن یزید اور ابو وائل کے واسطہ سے بھی منقول ہوئی ہے اور مزید برآں مسند احمد میں زِرّ بن حبیش کی دو روایتیں اور نقل ہوئی ہیں جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخریٰ ، عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہیٰ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں قال رسول اللہ ﷺ رأیت جبریل عند سدرۃ المنتہیٰ علیہ ستمائۃ جناح۔ " رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جبریل کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، ان کے چھ سو بازو تھے "۔ اسی مضمون کی روایت امام احمد نے شقیق بن سلمہ سے بھی نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی زبان سے یہ سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود یہ فرمایا تھا کہ میں نے جبریل ؑ کو اس صورت میں سدرۃ المنتہیٰ پر دیکھا تھا۔ (
3
)۔ حضرت ابوہریرہ سے عطاء بن ابی رباح نے آیت لَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخریٰ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ رایٰ جبریل علیہ السلام۔ " حضور نے جبریل ؑ کو دیکھا تھا "۔ (مسلم، کتاب الایمان)۔ (
4
) حضرت ابوذر غفاری سے عبداللہ بن شقیق کی دو روایتیں امام مسلم نے کتاب الایمان میں نقل کی ہیں۔ ایک روایت میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ حضور نے جواب دیا نورٌ اَنّیٰ اراہ۔ اور دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ میرے اس سوال کا جواب آپ نے یہ دیا کہ رأیت نوراً۔ حضور کے پہلے ارشاد کا مطلب ابن القیم نے زادالمعاد میں یہ بیان کیا ہے کہ " میرے اور رؤیت رب کے درمیان نور حائل تھا "۔ اور دوسرے ارشاد کا مطلب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ " میں نے اپنے رب کو نہیں بلکہ بس ایک نور دیکھا "۔ نسائی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوذر کا قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ " رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دل سے دیکھا تھا، آنکھوں سے نہیں دیکھا "۔ (
5
) حضرت ابو موسیٰ اشعری سے امام مسلم کتاب الایمان میں یہ روایت لائے ہیں کہ حضور نے فرمایا ما انتھیٰ الیہ بصر من خلقہ۔ " اللہ تعالیٰ تک اس کی مخلوق میں سے کسی کی نگاہ نہیں پہنچی "۔ (
6
) حضرت عبداللہ بن عباس کی روایات مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے مَا کَذَبَ الْفُؤادُ مَا رأی، وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا۔ یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے۔ ابن مردویہ نے عطاء بن ابی رباح کے حوالہ سے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہیں بلکہ دل سے دیکھا تھا۔ نسائی میں عکرمہ کی روایت ہے کہ ابن عباس نے فرمایا اتعجبون ان تکون الخلۃ لابراہیم والکلام لموسیٰ والرؤیۃُ لمحمد ؟۔ " کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ ابراہیم ؑ کو اللہ نے خلیل بنایا، موسیٰ ؑ کو کلام سے سر فراز کیا اور محمد ﷺ کو رؤیت کا شرف بخشا "۔ حاکم نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ترمذی میں شعبی کی روایت ہے کہ ابن عباس نے ایک مجلس میں فرمایا " اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد ﷺ نے دو مرتبہ اس کو دیکھا "۔ ابن عباس کی اسی گفتگو کو سن کر مسروق حضرت عائشہ کے پاس گے تھے اور ان سے پوچھا تھا " کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ " انہوں نے فرمایا " تم نے وہ بات کہی ہے جسے سن کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے "۔ اس کے بعد حضرت عائشہ اور مسروق کے درمیان وہ گفتگو ہوئی جسے ہم اوپر حضرت عائشہ کی روایات میں نقل کر آئے ہیں۔ ترمذی ہی میں دوسری روایات جو ابن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے ایک میں وہ فرماتے ہیں کہ حضور نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ دوسری میں فرماتے ہیں دو مرتبہ دیکھا تھا۔ اور تیسری میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ آپ نے اللہ کو دل سے دیکھا تھا۔ مسند احمد میں ابن عباس کی ایک روایت یہ ہے کہ قال رسول اللہ ﷺ رأیت ربی تبارک و تعالیٰ۔ " میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا "۔ دوسری روایت میں وہ کہتے ہیں ان رسول اللہ ﷺ قال اتانی ربی اللیلۃ فی احسن صورۃ، احسبہ یعنی فی النوم۔ " رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج رات میرا رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضور کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ خواب میں آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا "۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا، ایک مرتبہ آنکھوں سے اور دوسری مرتبہ دل سے۔ (
7
)۔ محمد بن کعب القرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے بعض صحابہ نہ پوچھا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ حضور نے جواب دیا " میں نے اس کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا " (ابن ابی حاتم)۔ اس روایت کو ابن جریر نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا " میں نے اس کو آنکھ سے نہیں بلکہ دل سے دو مرتبہ دیکھا ہے "۔ (
8
)۔ حضرت انس بن مالک کی ایک روایت جو قصہ معراج کے سلسلے میں شریک بن عبداللہ کے حوالہ سے امام بخاری نے کتاب التوحید میں نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ آتے ہیں حتّیٰ جَاءَ سِدْرَۃَ الْمُنْتَھیٰ و دَنَا الجبار رب العزۃ فتدلّیٰ حتّیٰ کَان منہ قاب قوسین او ادنیٰ فاوحی اللہ فیما اوحیٰ الیہ خمسین صلوٰۃ۔ یعنی " جب آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے تو اللہ رب العزۃ آپ کے قریب آیا اور آپ کے اوپر معلّق ہوگیا یہاں تک کہ آپ کے اور اس کے درمیان بقدر دو کمان یا اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ گیا، پھر اللہ نے آپ پر جو امور وحی فرمائے ان میں سے ایک
50
نمازوں کا حکم تھا "۔ لیکن علاوہ ان اعتراضات کے جو اس روایت کی سند اور مضمون پر امام خطابی، حافظ ابن حجر، ابن حزم اور حافظ عبدالحق صاحب الجمع بین الصحیحین نے کیے ہیں، سب سے بڑا اعتراض اس پر یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ صریح قرآن کے خلاف پڑتی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید دو الگ الگ رؤیتوں کا ذکر کرتا ہے جن میں سے ایک ابتداءً اُفُقِ اعلیٰ پر ہوئی تھی اور پھر اس میں دَنَا فَتَدَلّیٰ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ کا معاملہ پیش آیا تھا، اور دوسری سدرۃ المنتہیٰ کے پاس واقع ہوئی تھی۔ لیکن یہ روایت ان دونوں رؤیتوں کو خلط ملط کر کے ایک رؤیت بنا دیتی ہے۔ اس لیے قرآن مجید سے متعارض ہونے کی بنا پر اس کو تو کسی طرح قبول ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اب رہیں وہ دوسری روایات جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں، تو ان میں سب سے زیادہ وزنی روایتیں وہ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عائشہ سے منقول ہوئی ہیں، کیونکہ ان دونوں نے بالاتفاق خود رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ان دونوں مواقع پر آپ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل ؑ کو دیکھا تھا، اور یہ روایات قرآن مجید کی تصریحات اور اشارات سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں۔ مزید براں ان کی تائید حضور کے ان ارشادات سے بھی ہوتی ہے جو حضرت ابوذر اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے آپ سے نقل کیے ہیں، اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن عباس سے جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے۔ کسی میں وہ دونوں رؤیتوں کو عینی کہتے ہیں، کسی میں دونوں کو قلبی قرار دیتے ہیں، کسی میں ایک کو عینی اور دوسری کو قلبی بتاتے ہیں، اور کسی میں عینی رؤیت کی صاف صاف نفی کردیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی روایت بھی ایسی نہیں ہے جس میں وہ رسول اللہ ﷺ کا اپنا کوئی ارشاد نقل کر رہے ہوں۔ اور جہاں انہوں نے خود حضور کا ارشاد نقل کیا ہے، وہاں اول تو قرآن مجید کی بیان کردہ ان دونوں رؤیتوں میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں ہے، اور مزید برآں ان کی ایک روایت کی تشریح دوسری روایت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضور نے کسی وقت بحالت بیداری نہیں بلکہ خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ اس لیے درحقیقت ان آیات کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منسوب روایات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح محمد بن کعب القرظی کی روایات بھی، اگرچہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ارشاد نقل کرتی ہیں، لیکن ان میں ان صحابہ کرام کے ناموں کی کوئی تصریح نہیں ہے جنہوں نے حضور سے یہ بات سنی۔ نیز ان میں سے ایک میں بتایا گیا ہے کہ حضور نے عینی رویت کی صاف صاف نفی فرما دی تھی۔
Top