Tafheem-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 30
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
پس اے جِنّ و اِنس، تم اپنے رب کی کن کن صفاتِ حمیدہ کو جھٹلاؤ گے؟ 28
سورة الرَّحْمٰن 28 یہاں آلاء کا مفہوم اوصاف ہی زیادہ موزوں نظر آتا ہے۔ ہر شخص جو کسی نوعیت کا شرک کرتا ہے، دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کی تکذیب کرتا ہے۔ کسی کا یہ کہنا کہ فلاں حضرت نے میری بیماری دور کردی، اصل میں یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ شافی نہیں ہے بلکہ وہ حضرت شافی ہیں۔ کسی کا کہنا کہ فلاں بزرگ کی عنایت سے مجھے روزگار مل گیا، حقیقت میں یہ کہنا ہے کہ رازق اللہ نہیں ہے بلکہ وہ بزرگ رازق ہیں۔ کسی کا یہ کہنا کہ فلاں آستانے سے میری مراد بر آئی، گویا دراصل یہ کہنا ہے کہ دنیا میں حکم اللہ کا نہیں بلکہ اس آستانے کا چل رہا ہے۔ غرض ہر مشرکانہ عقیدہ اور مشرکانہ قول آخری تجزیہ میں صفات الٰہی کی تکذیب ہی پر منتہی ہوتا ہے۔ شرک کے معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی دوسروں کو سمیع وبصیر عالم الغیب، فاعل مختار، قادر و متصرف، اور الوہیت کے دوسرے اوصاف سے متصف قرار دے رہا ہے اور اس بات کا انکار کر رہا ہے کہ اکیلا اللہ ہی ان صفات کا مالک ہے۔
Top