Tafheem-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 76
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِیٍّ حِسَانٍۚ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي رَفْرَفٍ : مسندوں پر خُضْرٍ : سبز وَّعَبْقَرِيٍّ : اور نادر حِسَانٍ : نفیس
وہ جنّتی سبز قالینوں اور نفیس و نادر فرشوں52 پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے
سورة الرَّحْمٰن 52 اصل میں لفظ عَبْقَرِی استعمال ہوا ہے۔ عرب جاہلیت کے افسانوں میں جنوں کے دارالسلطنت کا نام عَبْقَر تھا جسے ہم اردو میں پرستان کہتے ہیں۔ اسی کی نسبت سے عرب کے لوگ ہر نفیس و نادر چیز کو عَبْقَری کہتے تھے، گویا وہ پرستان کی چیز ہے جس کا مقابلہ اس دنیا کی عام چیزیں نہیں کرسکتیں۔ حتیٰ کہ ان کے محاورے میں ایسے آدمی کو بھی عبقری کہا جاتا تھا جو غیر معمولی قابلیتوں کا مالک ہو، جس سے عجیب و غریب کارنامے صادر ہوں۔ انگریزی میں لفظ (Genius) بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے، اور وہ بھی Genii سے ماخوذ ہے جو جن کا ہم معنی ہے۔ اسی لیے یہاں اہل عرب کو جنت کے سروسامان کی غیر معمولی نفاست و خوبی کا تصور دلانے کے لیے عبقری کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
Top