Tafheem-ul-Quran - Al-Hashr : 18
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : تم اللہ سے ڈرو وَلْتَنْظُرْ : اور چاہیے کہ دیکھے نَفْسٌ : ہر شخص مَّا قَدَّمَتْ : کیا اس نے آگے بھیجا لِغَدٍ ۚ : کل کے لئے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌۢ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
28 اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ 29 اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو
سورة الْحَشْر 28 قرآن مجید کا قاعدہ ہے کہ جب کبھی منافق مسلمانوں کے نفاق پر گرفت کی جاتی ہے تو ساتھ ساتھ انہیں نصیحت بھی کی جاتی ہے تاکہ ان میں سے جس کے اندر بھی ابھی کچھ ضمیر کی زندگی باقی ہے وہ اپنی اس روش پر نادم ہو اور خدا سے ڈر کر اس گڑھے سے نکلنے کی فکر کرے جس میں نفس کی بندگی نے اسے گرا دیا ہے۔ یہ پورا رکوع اسی نصیحت پر مشتمل ہے۔ سورة الْحَشْر 29 کل سے مراد آخرت ہے۔ گویا دنیا کی یہ پوری زندگی " آج " ہے اور " کل " وہ یوم قیامت ہے جو اس آج کے بعد آنے والا ہے۔ یہ انداز بیان اختیار کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقہ سے انسان کو یہ سمجھایا ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ شخص نادان ہے جو آج کے لطف و لذت پر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا ہے۔ اور نہیں سوچتا کہ کل اس کے پاس کھانے کو روٹی اور سر چھپانے کو جگہ بھی باقی رہے گی یا نہیں، اسی طرح وہ شخص بھی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہا ہے جو اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہوچکا ہے، حالانکہ آخرت ٹھیک اسی طرح آنی ہے جس طرح آج کے بعد کل آنے والا ہے، اور وہاں وہ کچھ نہیں پاسکتا اگر دنیا کی موجودہ زندگی میں اس کے لیے کوئی پیشگی سامان فراہم نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ دوسرا حکیمانہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں ہر شخص کو آپ ہی اپنا محاسب بنایا گیا ہے۔ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے اور بھلے کہ تمیز پیدا نہ ہوجائے، اس کو سرے سے یہ احساس ہی نہیں ہوسکتا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ آخرت میں اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا۔ اور جب اس کے اندر یہ حس بیدار ہوجائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے وقت، اپنے سرمایے، اپنی محنت، اپنی قابلیتیں اور اپنی کوششوں کو جس راہ میں صرف کر رہا ہے وہ اسے جنت کی طرف سے جا رہی ہے یا جہنم کی طرف۔ یہ دیکھنا اس کے اپنے ہی مفاد کا تقاضا ہے، نہ دیکھے گا تو آپ ہی اپنا مستقبل خراب کرے گا۔
Top