Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 121
وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌ١ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْ١ۚ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
وَلَا تَاْكُلُوْا : اور نہ کھاؤ مِمَّا : اس سے جو لَمْ يُذْكَرِ : نہیں لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِسْقٌ : البتہ گناہ وَاِنَّ : اور بیشک الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) لَيُوْحُوْنَ : ڈالتے ہیں اِلٰٓي : طرف (میں) اَوْلِيٰٓئِهِمْ : اپنے دوست لِيُجَادِلُوْكُمْ : تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں وَاِنْ : اور اگر اَطَعْتُمُوْهُمْ : تم نے ان کا کہا مانا اِنَّكُمْ : تو بیشک لَمُشْرِكُوْنَ : مشرک ہوگے
اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاوٴ، ایسا کرنا فسق ہے۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دِلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔ 86لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کرلی تو یقیناً تم مشرک ہو۔87
سورة الْاَنْعَام 86 حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ علمائے یہود جہلائے عرب کو نبی ﷺ پر اعتراض کرنے کے جو سوالات سکھایا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ”آخر کیا معاملہ ہے کہ جسے خدا مارے وہ تو حرام ہو اور جسے ہم ماریں وہ حلال ہو جائے“۔ یہ ایک ادنٰی سا نمونہ ہے اس ٹیڑھی ذہنیت کا جو ان نام نہاد اہل کتاب میں پائی جاتی تھی۔ وہ اس قسم کے سوالات گھڑ گھڑ کر پیش کرتے تھے تاکہ عوام کے دلوں میں شبہات ڈالیں اور انہیں حق سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کر کے دیں۔ سورة الْاَنْعَام 87 یعنی ایک طرف اللہ کی خداوندی کا اقرار کرنا اور دوسری طرف اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے احکام پر چلنا اور ان کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پابندی کرنا، شرک ہے۔ توحید یہ ہے کہ زندگی سراسر اللہ کی اطاعت میں بسر ہو۔ اللہ کے ساتھ اگر دوسروں کو اعتقادًا مستقل بالذات مطاع مان لیا جائے تو یہ اعتقادی شرک ہے، اور اگر عملاً ایسے لوگوں کی اطاعت کی جائے جو اللہ کی ہدایت سے بےنیاز ہو کر خود امر و نہی کے مختار بن گئے ہوں تو یہ عملی شرک ہے۔
Top