Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 82
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا : نہ ملایا اِيْمَانَهُمْ : اپنا ایمان بِظُلْمٍ : ظلم سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْاَمْنُ : امن (دلجمعی) وَهُمْ : اور وہی مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہِراست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا“۔55
سورة الْاَنْعَام 55 یہ پوری تقریر اس بات پر شاہد ہے کہ وہ قوم اللہ فاطر السّمٰوات والارض کی ہستی کی منکر نہ تھی بلکہ اس کا اصلی جرم اللہ کے ساتھ دوسروں کو خدائی صفات اور خداوندانہ حقوق میں شریک قرار دینا تھا۔ اول تو حضرت ابراہیم ؑ خود ہی فرما رہے ہیں کہ تم اللہ کے ساتھ دوسری چیزوں کو شریک کرتے ہو۔ دوسرے جس طرح آپ ان لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ کا ذکر فرماتے ہیں، یہ انداز بیان صرف انہی لوگوں کے مقابلہ میں اختیار کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے نفس وجود سے منکر نہ ہوں۔ لہٰذا ان مفسرین کی رائے درست نہیں ہے جنھوں نے اس مقام پر اور حضرت ابراہیم ؑ کے سلسلہ میں دوسرے مقامات پر قرآن کے بیانات کی تفسیر اس مفروضہ پر کی ہے کہ قوم ابراہیم ؑ اللہ کی منکر یا اس سے ناواقف تھی اور صرف اپنے معبودوں ہی کو خدائی کا بالکلیہ مالک سمجھتی تھی۔ آخری آیت میں یہ جو فقرہ ہے کہ ”جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا“ ، اس میں لفظ ظلم سے بعض صحابہ کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ شاید اس سے مراد معصیت ہے۔ لیکن نبی ﷺ نے خود تصریح فرمادی کہ دراصل یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ اللہ کو مانیں اور اپنے اس ماننے کو کسی مشرکانہ عقیدہ و عمل سے آلودہ نہ کریں، امن صرف انہی کے لیے ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔ اس موقع پر یہ جان لینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ واقعہ جو حضرت ابراہیم ؑ کی عظیم الشان پیغمبرانہ زندگی کا نقطہ آغاز ہے، بائیبل میں کوئی جگہ نہیں پاسکا ہے۔ البتہ تلمود میں اس کا ذکر موجود ہے۔ لیکن اس میں دو باتیں قرآن سے مختلف ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حضرت ابراہیم ؑ کی جستجوئے حقیقت کو سورج سے شروع کر کے تاروں تک اور پھر خدا تک لے جاتی ہے۔ دوسرے اس کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جب سورج کو ھٰذَا رَبِّیْ کہا تو ساتھ ہی اس کی پرستش بھی کر ڈالی اور اسی طرح چاند کو بھی انہوں نے ھٰذَا رَبِّیْ کہہ کر اس کی پرستش کی۔
Top