Tafheem-ul-Quran - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، 31 اور سنو اور اطاعت کرو،  اوراپنے مال خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔ 32
سورة التَّغَابُن 31 قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے اِتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ ، " اللہ سے ایسا ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے " (آل اعمران 102)۔ دوسری جگہ فرمایا لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا، " اللہ کسی متنفس کو اس کی استطاعت سے زیادہ کا مکلف قرار نہیں دیتا " (البقرہ۔ 286)۔ اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ " جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو "۔ ان تینوں آیتوں کو ملا کر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت وہ معیار ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے جس تک پہنچنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے۔ دوسری آیت یہ اصولی بات ہمیں بتاتی ہے کہ کسی شخص سے بھی اس کی استطاعت سے زیادہ کام کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اللہ کے دین میں آدمی بس اتنے ہی کا مکلف ہے جس کی وہ مقدرت رکھتا ہو۔ اور یہ آیت ہر مومن کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ اپنی حد تک تقویٰ کی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ جہاں تک بھی اس کے لیے ممکن ہو اسے اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے چاہییں اور اس کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ اس معاملہ میں اگر وہ خود تساہل سے کام لے گا تو مواخذہ سے نہ بچ سکے گا۔ البتہ جو چیز اس کی مقدرت سے باہر ہوگی (اور اس کا فیصلہ اللہ ہی بہتر کرسکتا ہے کہ کیا چیز کس کی مقدرت سے واقعی باہر تھی) اس کے معاملہ میں اس سے باز پرس نہ کی جائے گی۔ سورة التَّغَابُن 32 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الحشر، حاشیہ 19۔
Top