Tafheem-ul-Quran - At-Taghaabun : 7
زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا١ؕ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ١ؕ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
زَعَمَ : دعوی کیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يُّبْعَثُوْا : اٹھائے جائیں گے قُلْ : کہہ دیجئے بَلٰى وَرَبِّيْ : کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم لَتُبْعَثُنَّ : البتہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ : پھر البتہ تم ضرور بتائے جاؤ گے بِمَا عَمِلْتُمْ : ساتھ اس کے جو تم نے عمل کیے وَذٰلِكَ : اور یہ بات عَلَي : پر اللّٰهِ يَسِيْرٌ : اللہ (پر) بہت آسان ہے
مُنکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہر گز دوبارہ نہ اُٹھائے جائیں گے۔ 14 ان سے کہو”نہیں، میرےرب کی قسم تم ضرور اُٹھائے جاؤ گے، 15 پھر ضرور تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے (دنیا میں)کیا کچھ کیا ہے، 16 اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔“ 17
سورة التَّغَابُن 14 یعنی ہر زمانے میں منکرین حق دوسری جس بنیادی گمراہی میں مبتلا رہے ہیں، اور جو بالآخر ان کی تباہی کی موجب ہوئی، وہ یہ تھی۔ اگرچہ کسی منکر آخرت کے پاس نہ پہلے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ تھا، نہ آج ہے، نہ کبھی ہوسکتا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ لیکن ان نادانوں نے ہمیشہ بڑے زور کے ساتھ یہی دعویٰ کیا ہے، حالانکہ قطعیت کے ساتھ آخرت کا انکار کردینے کے لیے نہ کوئی عقلی بنیاد موجود ہے نہ علمی بنیاد۔ سورة التَّغَابُن 15 یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی قسم کھا کر لوگوں سے کہو کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا۔ پہلے سورة یونس میں فرمایا وَیَسْتَنْبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ ، قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۔ " وہ پوچھتے ہیں کیا واقعی یہ حق ہے ؟ کہو، میرے رب کی قسم یہ یقیناً حق ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہور میں آنے سے روک دو " (آیت 53)۔ پھر سورة سبا میں فرمایا وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَأتِیْنَا السَّاعَۃُ ، قُلْ بَلیٰ وَرَبِّی لَتَأتِیَنَّکُمْ۔ " منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے ! کہو، قسم ہے میرے رب کی وہ تم پر آ کر رہے گی " (آیت 30)۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک منکر آخرت کے لیے آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسے آخرت کے آنے کی خبر قسم کھا کردیں یا قسم کھائے بغیر دیں ؟ وہ جب اس چیز کو نہیں مانتا تو محض اس بنا پر کیسے مان لے گا کہ آپ قسم کھا کر اس سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو رسول اللہ ﷺ کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بنا پر یہ بات خوب جانتے تھے کہ یہ شخص کبھی عمر بھر جھوٹ نہیں بولا ہے، اس لیے چاہے زبان سے وہ آپ کے خلاف کیسے ہی بہتان گھڑتے رہے ہوں، اپنے دلوں میں وہ یہ تصور تک نہ کرسکتے تھے کہ ایسا سچا انسان کبھی خدا کی قسم کھا کر وہ بات کہہ سکتا ہے جس کے بر حق ہونے کا اسے کامل یقین نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آپ ﷺ محض آخرت کا عقیدہ ہی بیان نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے لیے نہایت معقول دلائل بھی پیش فرماتے تھے۔ مگر جو چیز نبی اور غیر نبی کے درمیان فرق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک غیر نبی آخرت کے حق میں جو مضبوط سے مضبوط دلائل دے سکتا ہے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ نس یہی ہوسکتا ہے کہ آخرت کے نہ ہونے کی بہ نسبت اس کا ہونا معقول تر اور اغلب تسلیم کرلیا جائے۔ اس کے برعکس نبی کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالا تر ہے۔ اس کی اصل حیثیت یہ نہیں ہے کہ عقلی استدلال سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ آخرت ہونی چاہیے۔ بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ آخرت ہوگی اور یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ ضرور ہو کر رہے گی۔ اس لیے ایک نبی ہی قسم کھا کر یہ بات کہہ سکتا ہے، ایک فلسفی اس پر قسم نہیں کھا سکتا۔ اور آخرت پر ایمان ایک نبی کے بیان ہی سے پیدا ہوسکتا ہے، فلوسفی کا استدلال اپنے اندر یہ وقت نہیں رکھتا کہ دوسرا شخص تو در کنار، فلسفی خود بھی اپنی دلیل کی بنا پر اپنا ایمانی عقیدہ بنا سکے۔ فلسفی اگر واقعی صحیح الفکر فلسفی ہو تو وہ " ہونا چاہیے " سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ " ہے اور یقیناً ہے " کہنا صرف ایک بی کا کام ہے۔ سورة التَّغَابُن 16 یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے بنی آدم کو مرنے کے بعد دو بارہ اٹھایا جائے گا، اور اسی میں اس سوال کا جواب بھی ہے کہ ایسا کرنے کی آخر ضرورت کیا ہے۔ اگر وہ بحث آدمی کی نگاہ میں ہو جو سورة کے آغاز سے آیت نمبر 4 تک کی گئی ہے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس بر حق کائنات میں جس مخلوق کو کفر و ایمان میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہو، اور جسے اس کائنات میں بہت سی چیزوں پر تصرف کا اقتدار بھی عطا کیا گیا ہو، اور جس نے کفر یا ایمان کی راہ اختیار کر رکے عمر بھر اپنے اس اقتدار کو صحیح یا غلط طریقے سے استعمال کر کے بہت سی بھلائیاں یا بہت سی برائیاں خود اپنی ذمہ داری پر کی ہوں، اس کے بارے میں یہ تصور کرنا انتہائی غیر معقول ہے کہ یہ سب کچھ جب وہ کرچکے تو آخر کار بھلے کی بھلائی اور برے کی برائی، دونوں بےنتیجہ رہی اور سرے سے کوئی وقت ایسا آئے ہی نہیں جب اس مخلوق کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو۔ جو شخص ایسی غیر معقول بات کہتا ہے وہ لا محالہ دو حماقتوں میں سے ایک حماقت کا ارتکاب کرتا ہے۔ یا تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ کائنات ہے تو مبنی بر حکمت، مگر یہاں انسان جیسی با اختیار مخلوق کو غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی کائنات ہے جسے بنانے میں سرے سے کسی حکیم کی حکمت کار فرما نہیں ہے۔ پہلی صورت میں وہ ایک متناقض بات کہتا ہے کیونکہ مبنی بر حکمت کائنات میں ایک با اختیار مخلوق کا غیر ذمہ دار ہونا صریحاً خلاف عدل و حکمت ہے۔ اور دوسری صورت میں وہ اس بات کی کوئی معقول توجیہ نہیں کرسکتا کہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی نے حکمت کائنات میں انسان جیسی ذی عقل مخلوق کا وجود میں آنا آخر ممکن کیسے ہوا اور اس کے ذہن میں عدل و انصاف کا تصور کہاں سے آگیا ؟ بےعقلی کی عقل کی پیدائش اور بےعدلی سے عدل کا تصور برآمد ہوجانا ایک ایسی بات ہے جس کا قائل یا تو ایک ہٹ دھرم آدمی ہوسکتا ہے، یا پھر وہ جو بہت زیادہ فلسفہ بگھارتے بگھارتے دماغی مریض ہوچکا ہو۔ سورة التَّغَابُن 17 یہ آخرت کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل آخرت کے ضروری ہونے کی تھی، اور یہ دلیل اس کے ممکن ہونے کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس خدا کے لیے کائنات کا اتنا بڑا نظام بنادینا دشوار نہ تھا اور جس کے لیے اس دنیا میں انسانوں کو پیدا کرنا دشوار نہیں ہے، اس کے لیے یہ بات آخر کیوں دشوار ہوگی کہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے اپنے سامنے حاضر کرے اور ان کا حساب لے۔
Top