Tafheem-ul-Quran - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور بےشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔ 4
سورة الْقَلَم 4 اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں اسی وجہ سے آپ ہدایت خلق کے کام میں یہ اذیتیں برداشت کر رہے ہیں ورنہ ایک کمزور اخلاق کا انسان یہ کام نہیں کرسکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ قرآن کے علاوہ آپ کے بلند اخلاق بھی اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کفار آپ پر دیوانگی کی جو تہمت رکھ رہے ہیں وہ سراسر جھوٹی ہے، کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ دیوانہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہو اور جس کے مزاج میں اعتدال باقی نہ رہا ہو۔ اس کے برعکس آدمی کے بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہے اور اس کا ذہن اور مزاج غایت درجہ متوازن ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق جیسے کچھ تھے۔ اہل مکہ ان سے ناواقف نہ تھے۔ اس لیے ان کی طرف محض اشارہ کردینا ہی اس بات کے لیے کافی تھا کہ مکہ کا ہر معقول آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ وہ لوگ کس قدر بےشرم ہیں جو ایسے بلند اخلاق آدمی کو مجنون کہہ رہے ہیں۔ ان کی یہ بیہودگی رسول اللہ ﷺ کے لیے نہیں بلکہ خود ان کے لیے نقصان دہ تھی کہ مخالفت کے جوش میں پاگل ہو کر وہ آپ کے متعلق ایسی بات کہہ رہے تھے جسے کوئی ذی فہم آدمی قابل تصور نہ مان سکتا تھا۔ یہی معاملہ ان مدعیان علم و تحقیق کا بھی ہے جو اس زمانے میں رسول اللہ ﷺ پر مرگی اور جنون کی تہمت رکھ رہے ہیں۔ قرآن پاک دنیا میں ہر جگہ مل سکتا ہے، اور حضور ﷺ کی سیرت بھی اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ لکھی ہوئی موجود ہے۔ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو لوگ اس بےمثل کتاب کے پیش کرنے والے اور ایسے بلند اخلاق رکھنے والے انسان کو ذہنی مریض قرار دیتے ہیں وہ عداوت کے اندھے جذبے سے مغلوب ہو کر کیسی لغو بات کہہ رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہ نے اپنے اس قول میں فرمائی ہے کہ کان خلقہ القران۔ " قرآن آپ کا اخلاق تھا "۔ امام احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور ابن جریر نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ ان کا یہ قول متعدد سندوں سے نقل کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں کی تھی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھا دیا تھا۔ جس چیز کا قرآن میں حکم دیا گیا آپ نے خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل کیا، جس چیز سے اس میں روکا گیا آپ نے خود سب سے زیادہ اس سے اجتناب فرمایا، جن اخلاقی صفات کو اس میں فضلیت قرار دیا گیا سب سے بڑھ کر آپ کی ذات ان سے متصف تھی، اور جن صفات کو اس میں ناپسند ٹھیرایا گیا سب سے زیادہ آپ ان سے پاک تھے۔ ایک اور وایت میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ " رسول اللہ ﷺ نے بھی کسی خادم کو نہیں مارا کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا، جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، اپنی ذات کے لیے کبھی کسی ایسی تکلیف کا انتقام نہیں لیا جو آپ کو پہنچائی گئی ہو الا یہ کہ اللہ کی حرمتوں کو توڑا گیا ہو اور آپ نے اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیا ہو، اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب دو کاموں میں سے ایک کا آپ کو انتخاب کرنا ہوتا تو آپ آسان تر کام کو پسند فرماتے تھے، الا کہ وہ گناہ ہو، اور اگر کوئی کام گناہ ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے تھے " (مسند احمد)۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ " میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی ہے۔ آپ نے کبھی میری کسی بات پر اف تک نہ کی، کبھی میرے کسی کام پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کیوں نہ کیا "۔ (بخاری و مسلم)۔
Top