Tafheem-ul-Quran - Al-Haaqqa : 17
وَّ الْمَلَكُ عَلٰۤى اَرْجَآئِهَا١ؕ وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ
وَّالْمَلَكُ : اور فرشتے عَلٰٓي اَرْجَآئِهَا : اس کے کناروں پر ہوں گے وَيَحْمِلُ : اور اٹھائے ہوئے ہوں گے عَرْشَ رَبِّكَ : تیرے رب کا عرش فَوْقَهُمْ : اپنے اوپر يَوْمَئِذٍ : اس دن ثَمٰنِيَةٌ : آٹھ (فرشتے)
فرشتے اس کے اطراف و جوانب میں ہوں گے اور آٹھ فرشتے اُس روز تیرے ربّ کا عرش اپنے اُوپر اُٹھائے ہوئے ہوں گے۔ 11
سورة الْحَآقَّة 11 یہ آیت متشابہات میں سے ہے جس کے معنی متعین کرنا مشکل ہے۔ ہم نہ یہ جان سکتے ہیں کہ عرش کیا چیز ہے اور نہ یہی سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت کے روز آٹھ فرشتوں کے اس کو اٹھانے کی کیفیت کیا ہوگی۔ مگر یہ بات بہرحال قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوگا اور آٹھ فرشتے اس کو عرش سمیت اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ آیت میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا ہوگا، اور ذات باری کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اسے اٹھائے۔ اس لیے کھوج کرید کر کے اس کے معنی متعین کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو گمراہی کے خطرے میں مبتلا کرنا ہے۔ البتہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی حکومت و فرمانروائی اور اس کے معاملات کا تصور دلانے کے لیے لوگوں کے سامنے وہی نقشہ پیش کیا گیا ہے جو دنیا میں بادشاہی کا نقشہ ہوتا ہے، اور اس کے لیے وہی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جو انسانی زبانوں میں سلطنت اور اس کے مظاہر و لوازم کے لیے مستعمل ہیں، کیونکہ انسانی ذہن اسی نقشے اور انہی اصلاحات کی مدد سے کسی حد تک کائنات کی سلطانی کے معاملات کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ اصل حقیقت کو انسانی فہم سے قریب تر کرنے کے لیے ہے۔ اس کو بالکل لفظی معنوں میں لے لینا درست نہیں ہے۔
Top