Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 103
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَظَلَمُوْا : تو انہوں نے ظلم (انکار کیا) بِهَا : ان کا فَانْظُرْ : سو تم دیکھو كَيْفَ : کیا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
پھر اُن قوموں کے بعد (جن کا ذکر اُوپر کیا گیا) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا 83مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا،84 پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا
سورة الْاَعْرَاف 83 اوپر جو قصے بیان ہوئے ان سے مقصود یہ ذہن نشین کرانا تھا کہ جو قوم خدا کا پیغام پانے کے بعد اسے رد کردیتی ہے اسے پھر ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا۔ اس کے بعد اب موسیٰ و فرعون اور بنی اسرائیل کا قصہ کئی رکوعوں تک مسلسل چلتا ہے جس میں اس مضمون کے علاوہ چند اور اہم سبق بھی کفار قریش، یہود اور ایمان لانے والے گروہ کردیے گئے ہیں۔ کفار قریش کو اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھا نے کی کوشش کی گئی ہے کہ دعوت حق کے ابتدائی مرحلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تناسب بظاہر نظر آتا ہے، اس سے دھوکا نہ کھانا چاہیے۔ حق کی تو پوری تاریخ ہی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سروسامان کے اس باطل کے خلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے، پھر بھی آخر کار وہی غالب آکر رہتا ہے۔ نیز اس قصے میں ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داعی حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں اور جن تدبیروں سے اس کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کس طرح الٹی پڑتی ہیں۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکریں حق کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے ان کو کتنی کتنی طویل مدّت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیتا چلا جاتا ہے اور جب کسی تنبیہ کسی سبق آموز واقعے اور کسی روشن نشانی سے بھی وہ اثر نہیں لیتے تو پھر وہ انہیں کیسی عبرتناک سزا دیتا ہے۔ جو لوگ نبی ﷺ پر ایمان لے آئے تھے ان کو اس قصے میں دوہرا سبق دیا گیا ہے۔ پہلا سبق اس بات کا کہ اپنی قلت و کمزوری کو اور مخالفین حق کی کثرت و شوکت کو دیکھ کر ان کی ہمت نہ ٹوٹے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوتے دیکھ کر وہ دل شکستہ نہ ہوں۔ دوسرا سبق اس بات کا کہ ایمان لانے کے بعد جو گروہ یہودیوں کی سی روش اختیار کرتا ہے وہ پھر یہودیوں ہی کی طرح خدا کی لعنت میں گرفتار بھی ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کے سامنے ان کی عبرتناک تاریخ پیش کرکے انہیں باطل پرستی کے برے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے اور اس پیغمبر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو پچھلے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کو تمام آمیزشوں سے پاک کر کے پھر اس کی اصلی صورت میں پیش کر رہا ہے۔ سورة الْاَعْرَاف 84 نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، یعنی ان کو نہ مانا اور انہیں جادو گری قرار دے کر ٹالنے کی کوشش کی۔ جس طرح کسی ایسے شعر کو جو شعریت کا مکمل نمونہ ہو تک بندی سے تعبیر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا نہ صرف اس شعر کے ساتھ بلکہ نفس شاعری اور ذوق شعری کے ساتھ بھی ظلم ہے، اسی طرح وہ نشانیاں جو خود اپنے من جانب اللہ ہونے پر صریح گواہی دے رہی ہوں اور جن کے متعلق کوئی صاحب عقل آدمی یہ گمان تک نہ کرسکتا ہو کہ سحر کے زور سے بھی ایسی نشانیاں ظاہر ہو سکتی ہیں، بلکہ جن کے متعلق خود فن سحر کے ماہرین نے شہادت دے دی ہو کہ وہ ان کے فن کی دسترس سے بالا تر ہیں، ان کو سحر قرار دینا نہ صرف ان نشانیوں کے ساتھ بلکہ عقل سلیم اور صداقت کے ساتھ بھی ظلم عظیم ہے۔
Top