Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 165
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَئِیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا : جو ذُكِّرُوْا بِهٖٓ : انہیں سمجھائی گئی تھی اَنْجَيْنَا : ہم نے بچا لیا الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَنْهَوْنَ : منع کرتے تھے عَنِ السُّوْٓءِ : برائی سے وَاَخَذْنَا : اور ہم نے پکڑ لیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا بِعَذَابٍ : عذاب بَئِيْسٍ : برا بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : نافرمانی کرتے تھے
آخر کا ر جب اُن ہدایات کو با لکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو بُرائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔125
سورة الْاَعْرَاف 125 اس بیان سے معلوم ہوا کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجود تھے۔ ایک وہ جو دھڑلے سے احکام الہٰی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کرتے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اور ناصحوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا حاصل ہے۔ تیسرے وہ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بےحرمتی کو برداشت نہ کرسکتی تھی اور وہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آجائیں اور اگر وہ راہ راست نہ اختیار کریں تب بھی ہم اپنی حد تک تو اپنا فرض ادا کر کے خدا کے سامنے اپنی براءت کا ثبوت پیش کر ہی دیں۔ اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کہتا ہے کہ ان تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا کیونکہ اسی نے خدا کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی اور وہی تھا جس نے اپنی براءت کا ثبوت فراہم کر رکھا تھا۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کے مبتلائے عذاب ہونے کی اور تیسرے گروہ کے نجات پانے کی تصریح کی ہے، لیکن دوسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے لہٰذا اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نجات پانے والوں میں سے تھا یا مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے۔ پھر ایک روایت ابن عباس ؓ سے یہ مروی ہے کہ وہ پہلے اس بات کے قائل تھے کہ دوسرا گروہ مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے تھا، بعد میں ان کے شاگرد عکرمہ نے ان کو مطمئن کردیا کہ دوسرا گروہ نجات پانے والوں میں شامل تھا۔ لیکن قرآن کے بیان پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کا پہلا خیال ہی صحیح تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی بستی پر خدا کا عذاب آنے کی صورت میں تمام بستی دو ہی گروہوں میں تقسیم ہو سکتی ہے، ایک وہ جو عذاب میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بچا لیا جائے۔ اب اگر قرآن کی تصریح کے مطابق بچنے والا گروہ صرف تیسرا تھا، تو لا محالہ پہلے اور دوسرے دونوں گروہ نہ بچنے والوں میں شامل ہوں گے۔ اسی کی تائید مَعْذِرَةً اِلٰی رَبِّکُمْ کے فقرے سے بھی ہوتی ہے جس کی توثیق بعد کے فقرے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمادی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بستی میں علانیہ احکام الہٰی کی خلاف ورزی ہو رہی ہو وہ ساری کی ساری قابل مواخذہ ہوتی ہے اور اس کا کوئی باشندہ محض اس بنا پر مواخذہ سے بری نہیں ہوسکتا کہ اس نے خود خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ اسے خدا کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے لازماً اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی حد استطاعت تک اصلاح اور اقامت حق کی کوشش کرتا رہا تھا۔ پھر قرآن اور حدیث کے دوسرے ارشادات سے بھی ہم کو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی جرائم کے باب میں اللہ کا قانون یہی ہے۔ چناچہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ واتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ ا لَّذَینَ ظَلَمُوْ ا مِنْکُمْ خَآصَّةً (ڈرو اس فتنہ سے جس کے وبال میں خصوصیت کے ساتھ صرف وہی لوگ گرفتار نہیں ہوں گے جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو)۔ اور اس کی تشریح میں نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ ان اللہ لا یعذب العامة بعمل الخاصة حتٰی یرو المنکربین ظھرانیھم وھم قادرون علیٰ ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذا فعلوا ذٰلک عذب اللہ الخاصة و العامة، یعنی ”اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عامتہ الناس کی یہ حالت نہ ہوجائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے برے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہار ناراضی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہار ناراضی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کردیتا ہے“۔ مزید برآں جو آیات اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی پر خدا کا عذاب دو قسطوں میں نازل ہوا تھا۔ پہلی قسط وہ جسے عذاب بئیس (سخت عذاب) فرمایا گیا ہے، اور دوسری قسط وہ جس میں نافرمانی پر اصرار کرنے والوں کو بندر بنادیا گیا۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ پہلی قسط کے عذاب میں پہلے دونوں گروہ شامل تھے، اور دوسری قسط کا عذاب صرف پہلے گروہ کو دیا گیا تھا، واللہ اعلم بالصواب۔ ان اصبت فمن اللہ وان اخطَئْتُ فمن نفسی، واللہ غفورٌ رحیم۔
Top