Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے44 اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ،45 یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے
سورة الْاَعْرَاف 44 زمین میں فساد برپا نہ کرو، یعنی زمین کے انتظام کو خراب نہ کرو۔ انسان کا خدا کی بنگی سے نکل کر اپنے نفس کی یا دوسروں کی بندگی اختیار کرنا اور خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اخلاق، معاشرت اور تمدن کو ایسے اصول و قوانین پر قائم کرنا جو خدا کے سوا کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں، یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے انتظام میں خرابی کے بیشمار صورتیں رونما ہوتی ہیں اور اسی فساد کو روکنا قرآن کا مقصود ہے۔ پھر اس کے قرآن اس حقیقت پر بھی متنبہ کرتا ہے کہ زمین کے انتظام میں اصل چیز فساد نہیں ہے جس پر صلاح عارض ہوئی ہو بلکہ اصل چیز صلاح ہے جس پر فساد محض انسان کی جہالت اور سرکشی سے عارض ہوتا رہا ہے۔ بالفاظ دیگر یہاں انسان کی زندگی کی ابتدا جہالت و وحشت اور شرک و بغاوت اور اخلاقی بدنظمی سے نہیں ہوئی ہے جس کو دور کرنے کے لیے بعد میں بتدریج اصلاح کی گئی ہوں، بلکہ فی الحقیقت انسانی زندگی کا آغاز صلاح سے ہوا ہے اور بعد میں اس درست نظام کو غلط کار انسان اپنی حماقتوں اور شرارتوں سے خراب کرتے رہے ہیں۔ اسی فساد کو مٹانے اور نظام حیات کو از سرنو درست کردینے کے لیے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور انہوں نے ہر زمانے میں انسان کو یہی دعوت دی ہے کہ زمین کا انتظام جس صلاح پر قائم کیا گیا تھا اس میں فساد برپا کرنے سے باز آؤ۔ اس معاملہ میں قرآن کا نقطہ نظر ان لوگوں کے نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہے جنہوں نے ارتقاء کا ایک غلط تصور لے کر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ انسان ظلمت سے نکل کر بتدریج روشنی میں آیا ہے اور اس کی زندگی بگاڑ اور اس کی زندگی بگاڑ سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ بنی اور بنتی جارہی ہے۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو پوری روشنی میں زمین پر بسایا تھا اور ایک صالح نظام سے اس کی زندگی کی ابتدا کی تھی۔ پھر انسان خود شیطانی رہنمائی قبول کر کے بار بار تاریکی میں جاتا رہا اور اس صالح نظام کو بگاڑتا رہا اور خدا بار بار اپنے پیغمبر کو اس غرض کے لیے بھیجتا رہا کہ اسے تاریکی سے روشنی کی طرف آنے اور فساد سے باز رہنے کی دعوت دیں۔ (سورة براۃ، 230) سورة الْاَعْرَاف 45 اس فقرے سے واضح ہوگیا کہ اوپر کے فقرے میں جس چیز کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے وہ دراصل یہی ہے کہ انسان خدا کے بجائے کسی اور کو اپنا ولی و سرپرست اور کارساز اور کارساز اور کار فرما قرار دے کر مدد کے لیے پکارے۔ اور اصلاح اس کے سوا کسی دوسری چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان کی اس پکار کا مرجع پھر سے محض اللہ کی ذات ہی ہوجائے۔ خوف اور طمع کے ساتھ پکارنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خوف بھی ہو تو اللہ سے ہو اور تمہاری امیدیں بھی اگر کسی سے وابستہ ہوں تو صرف اللہ سے ہوں۔ اللہ کو پکارو تو اس احساس کے ساتھ پکارو کہ تمہاری قسمت بالکلیہ اس کی نظر عنایت پر منحصر ہے، فلاح وسعادت کو پہنچ سکتے ہو تو صرف اس کی مدد اور رہنمائی سے، ورنہ جہاں تم اس کی اعانت سے محروم ہوئے پھر تمہارے لیے تباہی و نامرادی کے سوا کوئی دوسرا انجام نہیں ہے۔
Top