Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 63
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
اَوَعَجِبْتُمْ : کیا تمہیں تعجب ہوا اَنْ : کہ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آئی ذِكْرٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب عَلٰي : پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْكُمْ : تم میں سے لِيُنْذِرَكُمْ : تاکہ وہ ڈرائے تمہیں وَلِتَتَّقُوْا : اور تاکہ تم پرہیزگار اختیار کرو وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
کیا تمہیں اس بات پرتعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے ربّ کی یاددہانی آئی تاکہ تمہیں خبر دار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاوٴ اور تم پر رحم کیا جائے؟49
سورة الْاَعْرَاف 49 یہ معاملہ جو حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم کے درمیان پیش آیا تھا بعینہ ایسا ہی معاملہ مکہ میں محمد ﷺ اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آرہا تھا۔ جو پیغام حضرت نوح ؑ کا تھا وہی حضرت محمد ﷺ کا تھا۔ جو شہبات اہل مکہ کے سردار حضرت محمد ﷺ کی رسالت میں ظاہر کیے تھے۔ پھر ان کے جواب میں جو باتیں حضرت نوح ؑ کہتے تھے بعینہ وہی باتیں محمد ﷺ بھی کہتے تھے آگے چل کر دوسرے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کے جو قصے مسلسل بیان ہو رہے ہیں ان میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ ہر نبی کی قوم کا رویّہ اہل مکہ کے رویّہ سے اور ہر نبی کی تقریر محمد ﷺ کی تقریر سے ہُو بہُو مشابہ ہے۔ اس سے قرآن اپنے مخاطبوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان کی گمراہی ہر زمانے میں بنیادی طور پر ایک ہی طرح کی رہی ہے، اور خدا کے بھیجے ہوئے معلّموں کی دعوت بھی ہر عہد اور ہر سر زمین میں یکساں رہی ہے اور ٹھیک اسی طرح ان لوگوں کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہوا ہے اور ہوگا جنہوں نے انبیاء کی دعوت سے منہ موڑا اور اپنی گمراہی پر اصرار کیا۔
Top