Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 72
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
فَاَنْجَيْنٰهُ : تو ہم نے اسے نجات دی (بچا لیا) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَقَطَعْنَا : اور ہم نے کاٹ دی دَابِرَ : جڑ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات وَمَا : اور نہ كَانُوْا : تھے مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
آخرِکار ہم نے اپنی مہربانی سے ہود ؑ اور اس کے ساتھیوں کو بچا لیا اور اُن لوگوں کی جڑ کاٹ دی جو ہماری آیات کو جُھٹلا چکے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے۔ 56
سورة الْاَعْرَاف 56 جڑ کاٹ دی، یعنی ان کا استیصال کردیا اور ان کا نام و نشان تک دنیا میں باقی نہ چھوڑا۔ یہ بات خود اہل عرب کی تاریخی روایات سے بھی ثابت ہے، اور موجودہ اثری اکتشافات بھی اس پر شہادت دیتے ہیں کہ عاد اولیٰ بالکل تباہ ہوگئے اور ان کی یادگاریں تک دنیا سے مٹ گئیں۔ چناچہ مورخین عرب انہیں عرب کی امم بائدہ (معدوم اقوام) میں شمار کرتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی عرب کے تاریخی مسلّمات میں سے ہے کہ عاد کا صرف وہ حصہ باقی رہا جو حضرت ہود کا پیرو تھا۔ انہی بقایائے عاد کا نام تاریخ میں عاد ثانیہ ہے اور حصن غراب کا وہ کتبہ جس کا ہم ابھی ابھی ذکر کرچکے ہیں انہی کی یادگاروں میں سے ہے۔ اس کتبہ میں (جسے تقریباً 18 سو برس قبل مسیح کی تحریر سمجھا جاتا ہے) ماہرین آثار نے جو عبارت پڑھی ہے اس کے چند جملے یہ ہیں۔ ”ہم نے ایک طویل زمانہ اس قلعہ میں اس شان سے گزارا ہے کہ ہماری زندگی تنگی و بد حالی سے دور تھی، ہماری نہریں دریا کے پانی سے لبریز رہتی تھیں۔۔۔۔۔ اور ہمارے حکمران ایسے بادشاہ تھے جو برے خیالات سے پاک اور اہل شر و فساد پر سخت تھے، وہ ہم پر ہود کی شریعت کے مطابق حکومت کرتے تھے اور عمدہ فیصلے ایک کتاب میں درج کرلیے جاتے تھے، اور ہم معجزات اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان رکھتے تھے۔“ یہ عبارت آج بھی قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ عاد کی قدیم عظمت و شوکت اور خوشحالی کے وارث آخر کار وہی لوگ ہوئے جو حضرت ہود پر ایمان لائے تھے۔
Top