Tafheem-ul-Quran - Al-Insaan : 21
عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ١٘ وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ١ۚ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا
عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ : انکے اوپر کی پوشاک سُنْدُسٍ : باریک ریشم خُضْرٌ : سبز وَّاِسْتَبْرَقٌ ۡ : اور دبیز ریشم (اطلس) وَّحُلُّوْٓا : اور انہیں پہنائے جائیں گے اَسَاوِرَ : کنگن مِنْ فِضَّةٍ ۚ : چاندی کے وَسَقٰىهُمْ : اور انہیں پلائے گا رَبُّهُمْ : ان کا رب شَرَابًا : ایک شراب (مشروب) طَهُوْرًا : نہایت پاک
اُن کے اوپر باریک ریشم کےسبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے،23 ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے، 24 اور ان کا ربّ ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔ 25
سورة الدَّهْر 23 یہی مضمون سورة کہف آیت 31 میں گزر چکا ہے کہ ویلبسون ثیابا خضرا من سندس و استبرق متکئین فیھا علی الارائک۔ " وہ (اہل جنت) باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے "۔ اس بنا پر ان مفسرین کی رائے صحیح نہیں معلوم ہوتی جنہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے مراد وہ کپڑے ہیں جو ان کی مسندوں یا مسہریوں کے اوپر لٹکے ہوئے ہوں گے، یا یہ ان لڑکوں کا لباس ہوگا جو ان کی خدمت میں دوڑے پھر رہے ہوں گے۔ سورة الدَّهْر 24 سورة کہف آیت 31 میں فرمایا گیا ہے یحلون فیھا من اساور من ذھب " وہ وہاں سونے کے گنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے "۔ یہی مضمون سورة حج آیت 23، اور سورة فاطر آیت 33 میں بھی ارشاد ہوا ہے۔ ان سب آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو تین صورتیں ممکن محسوس ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کبھی وہ چاہیں گے تو سونے کے کنگن پہنیں گے اور کبھی چاہیں گے تو چاندی کے کنگن پہن لیں گے۔ دونوں چیزیں ان کے حسب خواہش موجود ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ سونے اور چاندی کے کنگن وہ بیک وقت پہنیں گے، کیونکہ دونوں کو ملا دینے سے حسن دو بالا ہوجاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جس کا جی چاہیے گا سونے کے کنگن پہنے گا اور جو چاہے گا چاندی کے کنگن استعمال کرے گا۔ رہا یہ سوال کہ زیور تو عورتیں پہنتی ہیں، مردوں کو زیور پہنانے کا کیا موقع ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں بادشاہوں اور رئیسوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہاتھوں اور گلے اور سر کے تاجوں میں طرح طرح کے زیورات استعمال کرتے تھے، بلکہ ہمارے زمانے میں برطانوی ہند کے راجاؤں اور نوابوں تک میں یہ دستور رائج رہا ہے۔ سورة زخرف میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ جب اپنے سادہ لباس میں بس ایک لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچے اور اس سے کہا کہ میں اللہ رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ اچھا سفیر ہے جو اس حالت میں میرے سامنے آیا ہے، فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب اوجاء معہ الملئکۃ مقترنین۔ (آیت 53)۔ یعنی اگر یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوتا تو کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ؟ یا ملائکہ کا کوئی لشکر اس کی اردلی میں آتا۔ سورة الدَّهْر 25 پہلے دو شرابوں کا ذکر گزر چکا ہے۔ ایک وہ جس میں آب چشمئہ کافور کی آمیزش ہوگی۔ دوسری وہ جس میں آب چشمئہ زنجیل کی آمیزش ہوگی۔ ان دونوں شرابوں کے بعد اب پھر ایک شراب کا ذکر کرنا اور یہ فرمانا کہ ان کا رب انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ کوئی اور بہترین نوعیت کی شراب ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل خاص کے طور پر انہیں پلائی جائے گی۔
Top