Tafheem-ul-Quran - Al-Insaan : 24
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًاۚ
فَاصْبِرْ : پس صبر کریں لِحُكْمِ : حکم کے لئے رَبِّكَ : اپنے رب کے وَلَا تُطِعْ : اور آپ کہا نہ مانیں مِنْهُمْ : ان میں سے اٰثِمًا : کسی گنہگار اَوْ كَفُوْرًا : یا ناشکرے کا
لہٰذا تم اپنے ربّ کے حکم پر صبر کرو، 28 اور اِن میں سے کسی بد عمل یا منکرِ حق کی بات نہ مانو۔ 29
سورة الدَّهْر 28 یعنی تمارے رب نے جس کار عظیم پر تمہیں مامور کیا ہے اس کی سختیوں اور مشکلات پر صبر کرو، جو کچھ بھی تم پر گزر جائے اسے پا مردی کے ساتھ برداشت کرتے چلے جاؤ اور پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دو۔ سورة الدَّهْر 29 یعنی ان میں سے کسی سے دب کر دین حق کی تبلیغ سے باز نہ آؤ، اور کسی بد عمل کی خاطر دین کی اخلاقی تعلیمات میں، یا کسی منکر حق کی خاطر دین کے عقائد میں ذرہ برابر بھی ترمیم و تغیر کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ جو کچھ حرام و ناجائز ہے اسے بر ملا حرام و ناجائز کہو، خواہ کوئی بد کار کتنا ہی زور لگائے کہ تم اس کی مذمت میں ذرا سی نرمی ہی برت لو۔ اور جو عقائد باطل ہیں انہیں کھلم کھلا باطل اور جو حق ہیں انہیں علانیہ حق کہو، چاہے کفار تمہارا منہ بند کرنے، یا اس معاملہ میں کچھ نرمی اختیار کرلینے کے لیے تم پر کتنا ہی دباؤ ڈالیں۔ سورة الدَّهْر 30 قرآن کا قاعدہ ہے کہ جہاں بھی کفار کے مقابلہ میں صبر و ثبات کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس کے معاً بعد اللہ کے ذکر اور نماز کا حکم دیا گیا ہے، جس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دین حق کی راہ میں دشمنان حق کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہے وہ اسی چیز سے حاصل ہوتی ہے، صبح وشام اللہ کا ذکر کرنے سے مراد ہمیشہ اللہ کو یاد کرنا بھی ہوسکتا ہے، مگر جب اللہ کی یاد کا حکم اوقات کے تعین کے ساتھ دیا جائے تو پھر اس سے مراد نماز ہوتی ہے۔ آیت میں سب سے پہلے فرمایا اذکر اسم ربک بکرۃ و اصیلا۔ بکرہ عربی زبان میں صبح کو کہتے ہیں اصیل کا لفظ زوال کے وقت سے غروب تک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں ظہر اور عصر کے اوقات آجاتے ہیں۔ پھر فرمایا و من الیل فاسجد لہ۔ رات کا وقت غروب آفتاب کے بعد شروع ہوجاتا ہے، اس لیے رات کو سجدہ کرنے کے حکم میں مغرب اور عشاء، دونوں وقتوں کی نمازیں شامل ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد یہ ارشاد کہ رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو، نماز تہجد کی طرف صاف اشارہ کرتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، بنی اسرائیل حواشی 92 تا 97۔ جلد ششم، المزمل، حاشیہ 2)۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے یہی اوقات ابتدا سے اسلام میں تھے، البتہ اوقات اور رکعتوں کے تعین کے ساتھ پنجوقتہ نماز کی فرضیت کا حکم معراج کے موقع پر دیا گیا ہے۔
Top