Tafheem-ul-Quran - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
یہ وہ لوگ ہونگے جو (دُنیا میں)نذر پُوری کرتے ہیں، 10 اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی
سورة الدَّهْر 10 نذر پوری کرنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب کیا گیا ہو اسے وہ پورا کرے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے خود اپنے اوپر واجب کرلیا ہو، یا بالفاظ دیگر جس کام کے کرنے کا اس نے عہد کیا ہو، اسے وہ پورا کرے۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب ہو، ، خواہ وہ اس پر واجب کیا گیا ہو یا اس نے خود اپنے اوپر واجب کرلیا ہو، اسے وہ پورا کرے۔ ان تینوں مفہومات میں سے زیادہ معروف مفہوم دوسرا ہے اور عام طور پر لفظ نذر سے وہی مراد لیا جاتا ہے۔ بہرحال یہاں ان لوگوں کی تعریف یا تو اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ واجبات کو پورا کرتے ہیں، یا اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ ایسے نیک لوگ ہیں کہ جو خیر اور بھلائی کے کام اللہ نے ان پر واجب نہیں کیے ہیں ان کو بھی انجام دینے کا جب وہ اللہ سے عہد کرلیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں، کجا کہ ان واجبات کو ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کریں جو اللہ نے ان پر عائد فرمائے ہیں۔ جہاں تک نذر کے احکام کا تعلق ہے، ان کو مختصر طور پر ہم تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 310 میں بیان کرچکے ہیں، لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے یہاں ان کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کردیا جائے تاکہ لوگ نذر کے معاملہ میں جو غلطیاں کرتے ہیں یا جو غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں ان سے بچ سکیں اور نذر کے صحیح قواعد سے واقف ہوجائیں۔ (1) فقہاء نے نذر کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک آدمی اللہ سے یہ عہد کرے کہ وہ اس کی رضا کی خاطر فلاں نیک کام کرے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اس بات کی نذر مانے کہ اگر اللہ نے میری فلاں حاجت پوری کردی تو میں شکرانے میں فلاں نیک کام کروں گا۔ ان دونوں قسم کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذر تبرر (نیکی کی نذر) کہتے ہیں اور اس پر اتفاق ہے کہ اسے پورا کرنا واجب ہے۔ تیسرے یہ کہ آدمی کوئی ناجائز کام کرنے یا کوئی واجب کام نہ کرنے کا عہد کرلے۔ چوتھے یہ کہ آدمی کوئی مباح کام کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلے، یا کوئی مستحب کام نہ کرنے کا کوئی خلاف اولی کام کرنے کا عہد کرلے۔ ان دونوں قسموں کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذر لجاج (جہالت اور جھگڑالو پن اور ضد کی نذر) کہتے ہیں۔ ان میں سے تیسری قسم کی نذر کے متعلق اتفاق ہے کہ وہ منعقد ہی نہیں ہوتی۔ اور چوتھی قسم کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اسے پورا کرنا چاہیے۔ بعض کہتے ہیں کہ قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردینا چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے، خواہ نذر پوری کر دے، یا کفارہ ادا کر دے۔ شافعیوں اور مالکیوں کے نزدیک یہ نذر بھی سرے سے منعقد نہیں ہوتی۔ اور حنفیوں کے نزدیک دونوں قسموں کی نذروں پر کفارہ لازم آتا ہے۔ (عمدۃ القاری)۔ (2) متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے ایسی نذر ماننے سے منع فرمایا ہے جو یہ سمجھتے ہوئے مانی جائے کہ اس سے تقدیر بدل جائے گی، یا جس میں کوئی نیک کام اللہ کی رضا کے لیے بطور شکر کرنے کے بجائے آدمی اللہ تعالیٰ کو بطور معاوضہ یہ پیشکش کرے کہ آپ میرا یہ کام کردیں تو میں آپ کے لیے فلاں نیک کام کر دوں گا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ اخذ رسول اللہ ﷺ ینھی عن النذر و یقول انہ لا یرد شیئاً وانما یستخرج بہ من البخیل۔ " رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں سکتی، البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے "۔ (مسلم۔ ابو داؤد)۔ حدیث کے آخری فقرے کا مطلب یہ ہے کہ بخیل یوں تو راہ خدا میں مال نکالنے والا نہ تھا، نذر کے ذریعہ سے اس لالچ میں وہ کچھ خیرات کردیتا ہے کہ شاہد یہ معاوضہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تقدیر بدل دے۔ دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا النذر لا یقدم شیئاً ولا یوخرہ وانما یستخرج بہ من البخیل۔ " نذر نہ کوئی کام پہلے کرا سکتی ہے، نہ کسی ہوتے کام میں تاخیر کرا سکتی ہے۔ البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل کے ہاتھ سے نکلوا لیا جاتا ہے " (بخاری و مسلم)۔ ایک اور روایت میں وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا انہ لا یاتی بخیر وانما یستخرج بہ من البخیل۔ " اس سے کوئی کام بنتا نہیں ہے البتہ اس کے ذریعے سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے " (بخاری و مسلم)۔ تقریباً اسی مضمون کی متعدد روایات مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کی ہیں، اور ایک روایت بخاری و مسلم دونوں نے نقل کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ان النذر لا یقرب من ابن ادم شیئا لم یکن اللہ قدرہ لہ ولکن النذر یوافق القدر فیخرج بذالک من البخیل ما لم یکن البخیل یرید ان یخرج۔ " درحقیقت نذر ابن آدم کو کوئی ایسی چیز نہیں دلوا سکتی جو اللہ نے اس کے لیے مقدر نہ فرمائی ہو، لیکن نذر ہوتی تقدیر کے مطابق ہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تقدیر الہی وہ چیز بخیل کے پاس سے نکال لاتی ہے جسے وہ کسی اور طرح نکالنے والا نہ تھا "۔ اسی مضمون پر مزید روشنی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی اس روایت سے پڑتی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا انما النذر ما ابتغی بہ وجہ اللہ۔ " اصل نذر تو وہ ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو "۔ (طحاوی)۔ (3) نذر کے معاملہ میں ایک اور قاعدہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ صرف وہ نذر پوری کرنی چاہیے جو اللہ کی اطاعت میں ہو۔ اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر ہرگز پوری نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایسی چیز میں کوئی نذر نہیں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو، یا ایسے کام میں کوئی نذر نہیں ہے جو انسان کے بس میں نہ ہو۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ و من نذر ان یعص اللہ فلا یعصہ۔ " جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اس کی اطاعت کرنی چاہیے، اور جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اسے نافرمانی نہیں کرنی چاہیے " (بخاری، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، طحاوی)۔ ثابت بن ضحاک کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا لا وفاء لنذر فی معصیۃ اللہ ولا فیھا لا یملک ابن ادم۔ " اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کے پورا کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، نہ کسی ایسی چیز میں جو آدمی کی ملکیت میں نہ ہو "۔ (ابو داؤد)۔ مسلم نے اسی مضمون کی روایت حضرت عمران بن حصین سے نقل کی ہے۔ اور ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص کی روایت اس سے زیادہ مفصل ہے جس میں وہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ لا نذر ولا یمین فی ما لا یملک ابن ادم، ولا فی معصیۃ اللہ، ولا فی قطیعۃ رحم۔ " کوئی نذر اور کوئی قسم کسی ایسے کام میں نہیں ہے جو آدمی کے بس میں نہ ہو، یا اللہ کی نافرمانی میں ہو، یا قطع رحمی کے لیے ہو "۔ (4) جس کام میں بجائے خود کوئی نیکی نہیں ہے اور آدمی نے خواہ مخواہ کسی فضول کام، ناقابل برداشت مشقت یا محض تعذیب نفس کو نیکی سمجھ کر اپنے اوپر لازم کرلیا ہو اس کی نذر پوری نہیں کرنی چاہیے۔ اس معاملہ میں نبی ﷺ کے ارشادات بالکل واضح ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک صاحب دھوپ میں کھڑے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ کون ہے اور کیسے کھڑے ہیں ؟ عرض کیا گیا یہ ابو اسرائیل ہیں، انہوں نے نذر مانی ہے کہ کھڑے رہیں، بیٹھیں گے نہیں، نہ سایہ کریں گے، نہ کسی سے بات کریں، اور روزہ رکھیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا مروہ فلیکلم ولیستظل ولیقعد، ولیتم صومہ۔ " ان سے کہو بات کریں، سایہ میں آئیں، البتہ روزہ پورا کریں "۔ (بخاری، ابو داؤد، ابن ماجہ، موطا) حضرت عقبہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ میری بہن نے ننگے پاؤں پیدل حج کرنے کی نذر مانی اور یہ نذر بھی مانی کہ اس سفر میں سر پر کپڑا بھی نہ ڈالیں گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اسے کہو کہ سواری پر جائے اور سر ڈھانکے (ابو داؤد۔ مسلم نے اس مضمون کی متعدد روایات نقل کی ہیں جن میں کچھ لفظی اختلاف ہے)۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے عقبہ بن عامر کی بہن کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضور ﷺ کے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ یہ ہیں ان اللہ لغنی عن نذرھا، مرھا فلترکب۔ " اللہ کو اس کی اس نذر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے کہو کہ سواری پر جائے " (ابو داؤد)۔ ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا، میری بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہے حضور ﷺ نے فرمایا ان اللہ لا یصنع بشقاء اختک شیئا فلتحج راکبۃ۔ " تیری بہن کے مشقت میں پڑنے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں پڑی ہے۔ اسے سواری پر حج کرنا چاہیے "۔ (ابو داؤد)۔ حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے (غالباً سفر حج) میں دیکھا کہ ایک بڑے میاں کو ان کے دو بیٹے سنبھالے لیے چل رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا کیا معاملہ ہے ؟ عرض کیا گیا کہ انہوں نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا ان اللہ لغنی عن تعذیب ھذا نفسہ، و امرہ ان یرکب۔ " اللہ تعالیٰ اس سے بےنیاز ہے کہ یہ شخص اپنے نفس کو عذاب میں ڈالے "۔ پھر آپ نے اسے حکم دیا کہ سوا ہو۔ (بخاری، مسلم، ابو داؤد۔ مسلم میں اسی مضمون کی حدیث حضرت ابوہریرہ سے بھی مروی ہے)۔ (5) اگر کسی نذر کو پورا کرنا عملاً ممکن نہ ہو تو اسے کسی دوسری صورت میں پورا کیا جاسکتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ، میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح کردیا تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا یہیں پڑھ لے۔ اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے فرمایا شانک اذاً ، " اچھا تو تیری مرضی " دوسری ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا والذی بعث محمد بالحق، لو صلیت ھھنا لا جزا عنک صلوۃ فی بیت المقدس۔ " قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر تو یہیں نماز پڑھ لے تو بیت المقدس میں نماز پڑھنے کے بدلے یہ تیرے لیے کافی ہوگی "۔ (ابوداؤد)۔ (6) اگر کسی نے اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی نذر مان لی ہو تو اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام مالک کہتے کہ اسے ایک تہائی مال دے دینا چاہیے، اور مالکیہ میں سے سحنون کا قول ہے کہ اسے اتنا مال دے دینا چاہیے جسے دینے کے بعد تکلیف میں نہ پڑجائے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر یہ نذر تبرر کی نوعیت کی ہو تو ا سے سارا مال دے دینا چاہیے، اور اگر یہ نذر لحاج ہو تو اسے اختیار ہے کہ نذر پوری کرے یا قسم کا کفارہ ادا کرے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اسے اپنا وہ سب مال دے دینا چاہیے جس میں زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، لیکن جس مال میں زکوٰۃ نہیں ہے مثلاً مکان یا ایسی ہی دوسری املاک، اس پر اس نذر کا اطلاق نہ ہوگا۔ حنفیہ میں سے امام زفر کا قول ہے کہ اپنے اہل و عیال کے لیے دو مہینے کا نفقہ رکھ کر باقی سب صدقہ کر دے۔ (عمدۃ القاری۔ شرح مؤطاء از شاہ ولی اللہ صاحب)۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق جو روایات آئی ہیں وہ یہ ہیں حضرت کعب بن مالک کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ جانے کی وجہ سے جو عتاب مجھ پر ہوا تھا اس کی جب معافی مل گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری توبہ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ میں اپنے سارے مال سے دست بردار ہو کر اسے اللہ اور رسول کی راہ میں صدقہ کر دوں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا، پھر آدھا مال ؟ فرمایا، نہیں۔ میں نے عرض کیا، پھر ایک تہائی ؟ فرمایا ہاں (ابو داؤود)۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا تم اپنا کچھ مال اپنے لیے روک رکھو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے (بخاری۔ امام زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابو لبابہ نے (جن پر اسی غزوہ تبوک کے معاملہ میں عتاب ہوا تھا، حضور نے عرض کیا، میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کے طور پر اپنے سارے مال سے دست بردار ہوتا ہوں۔ حضور نے جواب دیا تمہارے لیے اس میں سے صرف ایک تہائی دے دینا کافی ہے (مؤطا)۔ (7) اسلام قبول کرنے سے پہلے اگر کسی شخص نے کسی نیک کام کی نذر مانی ہو تو کیا اسلام قبول کرنے کے بعد اسے پورا کیا جائے ؟ نبی ﷺ کا فتویٰ اس بارے میں یہ ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ بخاری، ابو داؤد اور طحاوی میں حضرت عمر کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات (اور بروایت بعض ایک دن) مسجد حرام میں اعتکاف کریں گے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے حضور سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا اوف بنذرک " اپنی نذری پوری کرو "۔ بعض فقہاء نے حضور کے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ ایسا کرنا واجب ہے، اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ یہ مستحب ہے۔ (8) میت کے ذمہ اگر کوئی نذر رہ گئی ہو تو اسے پورا کرنا وارثوں پر واجب ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور اور ظاہریہ کہتے ہیں کہ میت کے ذمہ اگر روزے یا نماز کی نذر رہ گئی ہو تو وارثوں پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر بدنی عبادت (نماز یا روزہ) کی ہو تو وارثوں پر اس کا پورا کرنا و اجب نہیں ہے، اور اگر مالی عبادت کی ہو اور مرنے والے نے اپنے وارثوں کو اسے پورا کرنے کی وصیت نہ کی ہو تو اسے پورا کرنا واجب نہیں، البتہ اگر اس نے وصیت کی ہو تو اس کے ترکے میں سے ایک تہائی کی حد تک نذر پوری کرنی واجب ہوگی۔ مالکیہ کا مذہب بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر غیر مالی عبادت کی ہو، یا مالی عبادت کی ہو اور میت نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو، تو اسے پورا کرنا وارثوں پر واجب نہیں ہے۔ اور اگر میت نے ترکہ چھوڑا ہو تو وارثوں پر مالی عبادت کی نذر پوری کرنا واجب ہے، خواہ اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو (شرح مسلم للنوی۔ بذل المجہود شرح ابی داؤد)۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کے ذمہ ایک نذر تھی جو انہوں نے پوری نہیں کی تھی۔ حضور نے فرمایا تم اس کی طرف سے پوری کردو (ابو داؤد۔ مسلم)۔ دوسری روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ایک عورت نے بحری سفر کیا اور نذر مانی کہ اگر میں زندہ سلامت واپس گھر پہنچ گئی تو ایک مہینے کے روزے رکھوں گی۔ واپس آنے کے بعد اس کا انتقال ہوگیا اور وہ مر گئی۔ اس کی بہن یا بیٹی نے آ کر رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا اور آپ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے تو روزے رکھ لے (ابو داؤد)۔ ایسی ہی ایک روایت ابوداؤد نے حضرت بریدہ سے نقل کی ہے کہ ایک عورت نے حضور سے اسی طرح کا مسئلہ پوچھا اور آپ نے اسے وہی جواب دیا جو اوپر مذکور ہوا ہے۔ ان روایات میں چونکہ یہ بات صاف نہیں ہے کہ حضور کے یہ ارشادات وجوب کے معنی میں تھے یا استجاب کے معنی ہیں، اور حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کی نذر کے معاملہ میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ مالی عبادت کے بارے میں تھی یا بدنی عبادت کے بارے میں، اسی بنا پر فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلافات ہوئے ہیں۔ (9) غلط اور نائز نوعیت کی نذر کے معاملہ میں یہ بات تو صاف ہے کہ اسے پورا نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ اس پر کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں۔ اس مسئلے میں چونکہ روایات مختلف ہیں اس لیے فقہاء کے مسالک بھی مختلف ہیں۔ ایک قسم کی روایات میں یہ آیا ہے کہ حضور نے ایسی صورت میں کفارہ کا حکم دیا ہے۔ مثلاً ، حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ حضور نے فرمایا لا نذر فی معصیۃ و کفارتہ کفارۃ یمین، " معصیت میں کوئی نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے " (ابوداؤد)۔ عقبہ بن عامر جہنی کی بہن کے معاملہ میں (جس کا ذکر اوپر نمبر 4) میں گزر چکا ہے) نبی ﷺ نے حکم دیا کہ وہ اپنی نذر توڑ دیں اور تین دن کے روزے رکھیں (مسلم۔ ابو داؤد)۔ ایک اور عورت کے معاملہ میں بھی جس نے پیدل حج کی نذر مانی تھی، حضور نے حکم دیا کہ وہ سواری پر حج کے لیے جائے اور قسم کا کفارہ ادا کر دے (ابوداؤد)۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من نذر نذراً لم یسمہ فکفارتہ کفارۃ یمین، و من نذر نذراً فی معصیۃ فکفارتہ کفارۃ یمین، و من نذر نذراً لا یطیقہ فکفارتہ کفارۃ یمین، و من نذ نذراً اطاقہ فلیف بہ۔ " جس نے ایک نذر مان لی اور اس بات کا تعین نہ کیا کہ کس بات کی نذر مانی ہے وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے معصیت کی نذر مانی وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے پورا کرنے کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے وہ پورا کرسکتا ہو وہ اسے پورا کرے " (ابوداؤد)۔ دوسری طرف وہ احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں کفارہ نہیں ہے۔ اوپر نمبر 4 میں جن صاحب کا ذکر آیا ہے کہ انہوں نے دھوپ میں کھڑے رہنے اور کسی سے بات نہ کرنے کی نذر مانی تھی، ان کا قصہ نقل کر کے امام مالک نے مؤطا میں لکھا ہے کہ مجھے کسی ذریعہ سے بھی یہ معلوم نہیں ہوا کہ حضور نے ان کو نذر توڑنے کا حکم دینے کے ساتھ یہ بھی حکم دیا ہو کہ وہ کفارہ ادا کریں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا من حلف علی یمین فراٰی غیرھا خیراً منھا فلیدعھا ولیات الذی ھو خیر فان ترکھا کفار تھا، " جس نے کسی بات کی قسم کھائی ہو اور بعد میں وہ دیکھے کہ اس سے بہتر بات دوسری ہے تو وہ اسے چھوڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہو اور اسے چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ") ابوداؤد)۔ بیہقی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اور حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت کہ " جو کام بہتر ہے وہ کرے اور یہی اس کا کفارہ ہے "۔ ثابت نہیں ہے)۔ امام نووی ان احادیث پر بحث کرتے ہوئے شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ امام مالک، شافعی ابوحنیفہ، داؤد ظاہری اور جمہور علماء رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ معصیت کی نذر باطل ہے اور اسے پورا نہ کرنے پر کفارہ لازم نہیں آتا۔ اور امام احمد کہتے ہیں کہ کفارہ لازم آتا ہے۔
Top