Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ
: وہ پوری کرتے ہیں
بِالنَّذْرِ
: (اپنی) نذریں
وَيَخَافُوْنَ
: اور وہ ڈر گئے
يَوْمًا
: اس دن سے
كَانَ
: ہوگی
شَرُّهٗ
: اس کی بُرائی
مُسْتَطِيْرًا
: پھیلی ہوئی
یہ وہ لوگ ہونگے جو (دُنیا میں)نذر پُوری کرتے ہیں،
10
اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی
سورة الدَّهْر
10
نذر پوری کرنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب کیا گیا ہو اسے وہ پورا کرے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے خود اپنے اوپر واجب کرلیا ہو، یا بالفاظ دیگر جس کام کے کرنے کا اس نے عہد کیا ہو، اسے وہ پورا کرے۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب ہو، ، خواہ وہ اس پر واجب کیا گیا ہو یا اس نے خود اپنے اوپر واجب کرلیا ہو، اسے وہ پورا کرے۔ ان تینوں مفہومات میں سے زیادہ معروف مفہوم دوسرا ہے اور عام طور پر لفظ نذر سے وہی مراد لیا جاتا ہے۔ بہرحال یہاں ان لوگوں کی تعریف یا تو اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ واجبات کو پورا کرتے ہیں، یا اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ ایسے نیک لوگ ہیں کہ جو خیر اور بھلائی کے کام اللہ نے ان پر واجب نہیں کیے ہیں ان کو بھی انجام دینے کا جب وہ اللہ سے عہد کرلیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں، کجا کہ ان واجبات کو ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کریں جو اللہ نے ان پر عائد فرمائے ہیں۔ جہاں تک نذر کے احکام کا تعلق ہے، ان کو مختصر طور پر ہم تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ
310
میں بیان کرچکے ہیں، لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے یہاں ان کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کردیا جائے تاکہ لوگ نذر کے معاملہ میں جو غلطیاں کرتے ہیں یا جو غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں ان سے بچ سکیں اور نذر کے صحیح قواعد سے واقف ہوجائیں۔ (
1
) فقہاء نے نذر کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک آدمی اللہ سے یہ عہد کرے کہ وہ اس کی رضا کی خاطر فلاں نیک کام کرے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اس بات کی نذر مانے کہ اگر اللہ نے میری فلاں حاجت پوری کردی تو میں شکرانے میں فلاں نیک کام کروں گا۔ ان دونوں قسم کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذر تبرر (نیکی کی نذر) کہتے ہیں اور اس پر اتفاق ہے کہ اسے پورا کرنا واجب ہے۔ تیسرے یہ کہ آدمی کوئی ناجائز کام کرنے یا کوئی واجب کام نہ کرنے کا عہد کرلے۔ چوتھے یہ کہ آدمی کوئی مباح کام کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلے، یا کوئی مستحب کام نہ کرنے کا کوئی خلاف اولی کام کرنے کا عہد کرلے۔ ان دونوں قسموں کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذر لجاج (جہالت اور جھگڑالو پن اور ضد کی نذر) کہتے ہیں۔ ان میں سے تیسری قسم کی نذر کے متعلق اتفاق ہے کہ وہ منعقد ہی نہیں ہوتی۔ اور چوتھی قسم کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اسے پورا کرنا چاہیے۔ بعض کہتے ہیں کہ قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردینا چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے، خواہ نذر پوری کر دے، یا کفارہ ادا کر دے۔ شافعیوں اور مالکیوں کے نزدیک یہ نذر بھی سرے سے منعقد نہیں ہوتی۔ اور حنفیوں کے نزدیک دونوں قسموں کی نذروں پر کفارہ لازم آتا ہے۔ (عمدۃ القاری)۔ (
2
) متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے ایسی نذر ماننے سے منع فرمایا ہے جو یہ سمجھتے ہوئے مانی جائے کہ اس سے تقدیر بدل جائے گی، یا جس میں کوئی نیک کام اللہ کی رضا کے لیے بطور شکر کرنے کے بجائے آدمی اللہ تعالیٰ کو بطور معاوضہ یہ پیشکش کرے کہ آپ میرا یہ کام کردیں تو میں آپ کے لیے فلاں نیک کام کر دوں گا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ اخذ رسول اللہ ﷺ ینھی عن النذر و یقول انہ لا یرد شیئاً وانما یستخرج بہ من البخیل۔ " رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں سکتی، البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے "۔ (مسلم۔ ابو داؤد)۔ حدیث کے آخری فقرے کا مطلب یہ ہے کہ بخیل یوں تو راہ خدا میں مال نکالنے والا نہ تھا، نذر کے ذریعہ سے اس لالچ میں وہ کچھ خیرات کردیتا ہے کہ شاہد یہ معاوضہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تقدیر بدل دے۔ دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا النذر لا یقدم شیئاً ولا یوخرہ وانما یستخرج بہ من البخیل۔ " نذر نہ کوئی کام پہلے کرا سکتی ہے، نہ کسی ہوتے کام میں تاخیر کرا سکتی ہے۔ البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل کے ہاتھ سے نکلوا لیا جاتا ہے " (بخاری و مسلم)۔ ایک اور روایت میں وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا انہ لا یاتی بخیر وانما یستخرج بہ من البخیل۔ " اس سے کوئی کام بنتا نہیں ہے البتہ اس کے ذریعے سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے " (بخاری و مسلم)۔ تقریباً اسی مضمون کی متعدد روایات مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کی ہیں، اور ایک روایت بخاری و مسلم دونوں نے نقل کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ان النذر لا یقرب من ابن ادم شیئا لم یکن اللہ قدرہ لہ ولکن النذر یوافق القدر فیخرج بذالک من البخیل ما لم یکن البخیل یرید ان یخرج۔ " درحقیقت نذر ابن آدم کو کوئی ایسی چیز نہیں دلوا سکتی جو اللہ نے اس کے لیے مقدر نہ فرمائی ہو، لیکن نذر ہوتی تقدیر کے مطابق ہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تقدیر الہی وہ چیز بخیل کے پاس سے نکال لاتی ہے جسے وہ کسی اور طرح نکالنے والا نہ تھا "۔ اسی مضمون پر مزید روشنی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی اس روایت سے پڑتی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا انما النذر ما ابتغی بہ وجہ اللہ۔ " اصل نذر تو وہ ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو "۔ (طحاوی)۔ (
3
) نذر کے معاملہ میں ایک اور قاعدہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ صرف وہ نذر پوری کرنی چاہیے جو اللہ کی اطاعت میں ہو۔ اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر ہرگز پوری نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایسی چیز میں کوئی نذر نہیں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو، یا ایسے کام میں کوئی نذر نہیں ہے جو انسان کے بس میں نہ ہو۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ و من نذر ان یعص اللہ فلا یعصہ۔ " جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اس کی اطاعت کرنی چاہیے، اور جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اسے نافرمانی نہیں کرنی چاہیے " (بخاری، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، طحاوی)۔ ثابت بن ضحاک کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا لا وفاء لنذر فی معصیۃ اللہ ولا فیھا لا یملک ابن ادم۔ " اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کے پورا کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، نہ کسی ایسی چیز میں جو آدمی کی ملکیت میں نہ ہو "۔ (ابو داؤد)۔ مسلم نے اسی مضمون کی روایت حضرت عمران بن حصین سے نقل کی ہے۔ اور ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص کی روایت اس سے زیادہ مفصل ہے جس میں وہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ لا نذر ولا یمین فی ما لا یملک ابن ادم، ولا فی معصیۃ اللہ، ولا فی قطیعۃ رحم۔ " کوئی نذر اور کوئی قسم کسی ایسے کام میں نہیں ہے جو آدمی کے بس میں نہ ہو، یا اللہ کی نافرمانی میں ہو، یا قطع رحمی کے لیے ہو "۔ (
4
) جس کام میں بجائے خود کوئی نیکی نہیں ہے اور آدمی نے خواہ مخواہ کسی فضول کام، ناقابل برداشت مشقت یا محض تعذیب نفس کو نیکی سمجھ کر اپنے اوپر لازم کرلیا ہو اس کی نذر پوری نہیں کرنی چاہیے۔ اس معاملہ میں نبی ﷺ کے ارشادات بالکل واضح ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک صاحب دھوپ میں کھڑے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ کون ہے اور کیسے کھڑے ہیں ؟ عرض کیا گیا یہ ابو اسرائیل ہیں، انہوں نے نذر مانی ہے کہ کھڑے رہیں، بیٹھیں گے نہیں، نہ سایہ کریں گے، نہ کسی سے بات کریں، اور روزہ رکھیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا مروہ فلیکلم ولیستظل ولیقعد، ولیتم صومہ۔ " ان سے کہو بات کریں، سایہ میں آئیں، البتہ روزہ پورا کریں "۔ (بخاری، ابو داؤد، ابن ماجہ، موطا) حضرت عقبہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ میری بہن نے ننگے پاؤں پیدل حج کرنے کی نذر مانی اور یہ نذر بھی مانی کہ اس سفر میں سر پر کپڑا بھی نہ ڈالیں گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اسے کہو کہ سواری پر جائے اور سر ڈھانکے (ابو داؤد۔ مسلم نے اس مضمون کی متعدد روایات نقل کی ہیں جن میں کچھ لفظی اختلاف ہے)۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے عقبہ بن عامر کی بہن کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضور ﷺ کے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ یہ ہیں ان اللہ لغنی عن نذرھا، مرھا فلترکب۔ " اللہ کو اس کی اس نذر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے کہو کہ سواری پر جائے " (ابو داؤد)۔ ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا، میری بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہے حضور ﷺ نے فرمایا ان اللہ لا یصنع بشقاء اختک شیئا فلتحج راکبۃ۔ " تیری بہن کے مشقت میں پڑنے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں پڑی ہے۔ اسے سواری پر حج کرنا چاہیے "۔ (ابو داؤد)۔ حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے (غالباً سفر حج) میں دیکھا کہ ایک بڑے میاں کو ان کے دو بیٹے سنبھالے لیے چل رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا کیا معاملہ ہے ؟ عرض کیا گیا کہ انہوں نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا ان اللہ لغنی عن تعذیب ھذا نفسہ، و امرہ ان یرکب۔ " اللہ تعالیٰ اس سے بےنیاز ہے کہ یہ شخص اپنے نفس کو عذاب میں ڈالے "۔ پھر آپ نے اسے حکم دیا کہ سوا ہو۔ (بخاری، مسلم، ابو داؤد۔ مسلم میں اسی مضمون کی حدیث حضرت ابوہریرہ سے بھی مروی ہے)۔ (
5
) اگر کسی نذر کو پورا کرنا عملاً ممکن نہ ہو تو اسے کسی دوسری صورت میں پورا کیا جاسکتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ، میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح کردیا تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا یہیں پڑھ لے۔ اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے فرمایا شانک اذاً ، " اچھا تو تیری مرضی " دوسری ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا والذی بعث محمد بالحق، لو صلیت ھھنا لا جزا عنک صلوۃ فی بیت المقدس۔ " قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر تو یہیں نماز پڑھ لے تو بیت المقدس میں نماز پڑھنے کے بدلے یہ تیرے لیے کافی ہوگی "۔ (ابوداؤد)۔ (
6
) اگر کسی نے اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی نذر مان لی ہو تو اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام مالک کہتے کہ اسے ایک تہائی مال دے دینا چاہیے، اور مالکیہ میں سے سحنون کا قول ہے کہ اسے اتنا مال دے دینا چاہیے جسے دینے کے بعد تکلیف میں نہ پڑجائے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر یہ نذر تبرر کی نوعیت کی ہو تو ا سے سارا مال دے دینا چاہیے، اور اگر یہ نذر لحاج ہو تو اسے اختیار ہے کہ نذر پوری کرے یا قسم کا کفارہ ادا کرے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اسے اپنا وہ سب مال دے دینا چاہیے جس میں زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، لیکن جس مال میں زکوٰۃ نہیں ہے مثلاً مکان یا ایسی ہی دوسری املاک، اس پر اس نذر کا اطلاق نہ ہوگا۔ حنفیہ میں سے امام زفر کا قول ہے کہ اپنے اہل و عیال کے لیے دو مہینے کا نفقہ رکھ کر باقی سب صدقہ کر دے۔ (عمدۃ القاری۔ شرح مؤطاء از شاہ ولی اللہ صاحب)۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق جو روایات آئی ہیں وہ یہ ہیں حضرت کعب بن مالک کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ جانے کی وجہ سے جو عتاب مجھ پر ہوا تھا اس کی جب معافی مل گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری توبہ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ میں اپنے سارے مال سے دست بردار ہو کر اسے اللہ اور رسول کی راہ میں صدقہ کر دوں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا، پھر آدھا مال ؟ فرمایا، نہیں۔ میں نے عرض کیا، پھر ایک تہائی ؟ فرمایا ہاں (ابو داؤود)۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا تم اپنا کچھ مال اپنے لیے روک رکھو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے (بخاری۔ امام زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابو لبابہ نے (جن پر اسی غزوہ تبوک کے معاملہ میں عتاب ہوا تھا، حضور نے عرض کیا، میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کے طور پر اپنے سارے مال سے دست بردار ہوتا ہوں۔ حضور نے جواب دیا تمہارے لیے اس میں سے صرف ایک تہائی دے دینا کافی ہے (مؤطا)۔ (
7
) اسلام قبول کرنے سے پہلے اگر کسی شخص نے کسی نیک کام کی نذر مانی ہو تو کیا اسلام قبول کرنے کے بعد اسے پورا کیا جائے ؟ نبی ﷺ کا فتویٰ اس بارے میں یہ ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ بخاری، ابو داؤد اور طحاوی میں حضرت عمر کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات (اور بروایت بعض ایک دن) مسجد حرام میں اعتکاف کریں گے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے حضور سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا اوف بنذرک " اپنی نذری پوری کرو "۔ بعض فقہاء نے حضور کے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ ایسا کرنا واجب ہے، اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ یہ مستحب ہے۔ (
8
) میت کے ذمہ اگر کوئی نذر رہ گئی ہو تو اسے پورا کرنا وارثوں پر واجب ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور اور ظاہریہ کہتے ہیں کہ میت کے ذمہ اگر روزے یا نماز کی نذر رہ گئی ہو تو وارثوں پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر بدنی عبادت (نماز یا روزہ) کی ہو تو وارثوں پر اس کا پورا کرنا و اجب نہیں ہے، اور اگر مالی عبادت کی ہو اور مرنے والے نے اپنے وارثوں کو اسے پورا کرنے کی وصیت نہ کی ہو تو اسے پورا کرنا واجب نہیں، البتہ اگر اس نے وصیت کی ہو تو اس کے ترکے میں سے ایک تہائی کی حد تک نذر پوری کرنی واجب ہوگی۔ مالکیہ کا مذہب بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر غیر مالی عبادت کی ہو، یا مالی عبادت کی ہو اور میت نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو، تو اسے پورا کرنا وارثوں پر واجب نہیں ہے۔ اور اگر میت نے ترکہ چھوڑا ہو تو وارثوں پر مالی عبادت کی نذر پوری کرنا واجب ہے، خواہ اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو (شرح مسلم للنوی۔ بذل المجہود شرح ابی داؤد)۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کے ذمہ ایک نذر تھی جو انہوں نے پوری نہیں کی تھی۔ حضور نے فرمایا تم اس کی طرف سے پوری کردو (ابو داؤد۔ مسلم)۔ دوسری روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ایک عورت نے بحری سفر کیا اور نذر مانی کہ اگر میں زندہ سلامت واپس گھر پہنچ گئی تو ایک مہینے کے روزے رکھوں گی۔ واپس آنے کے بعد اس کا انتقال ہوگیا اور وہ مر گئی۔ اس کی بہن یا بیٹی نے آ کر رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا اور آپ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے تو روزے رکھ لے (ابو داؤد)۔ ایسی ہی ایک روایت ابوداؤد نے حضرت بریدہ سے نقل کی ہے کہ ایک عورت نے حضور سے اسی طرح کا مسئلہ پوچھا اور آپ نے اسے وہی جواب دیا جو اوپر مذکور ہوا ہے۔ ان روایات میں چونکہ یہ بات صاف نہیں ہے کہ حضور کے یہ ارشادات وجوب کے معنی میں تھے یا استجاب کے معنی ہیں، اور حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کی نذر کے معاملہ میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ مالی عبادت کے بارے میں تھی یا بدنی عبادت کے بارے میں، اسی بنا پر فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلافات ہوئے ہیں۔ (
9
) غلط اور نائز نوعیت کی نذر کے معاملہ میں یہ بات تو صاف ہے کہ اسے پورا نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ اس پر کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں۔ اس مسئلے میں چونکہ روایات مختلف ہیں اس لیے فقہاء کے مسالک بھی مختلف ہیں۔ ایک قسم کی روایات میں یہ آیا ہے کہ حضور نے ایسی صورت میں کفارہ کا حکم دیا ہے۔ مثلاً ، حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ حضور نے فرمایا لا نذر فی معصیۃ و کفارتہ کفارۃ یمین، " معصیت میں کوئی نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے " (ابوداؤد)۔ عقبہ بن عامر جہنی کی بہن کے معاملہ میں (جس کا ذکر اوپر نمبر
4
) میں گزر چکا ہے) نبی ﷺ نے حکم دیا کہ وہ اپنی نذر توڑ دیں اور تین دن کے روزے رکھیں (مسلم۔ ابو داؤد)۔ ایک اور عورت کے معاملہ میں بھی جس نے پیدل حج کی نذر مانی تھی، حضور نے حکم دیا کہ وہ سواری پر حج کے لیے جائے اور قسم کا کفارہ ادا کر دے (ابوداؤد)۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من نذر نذراً لم یسمہ فکفارتہ کفارۃ یمین، و من نذر نذراً فی معصیۃ فکفارتہ کفارۃ یمین، و من نذر نذراً لا یطیقہ فکفارتہ کفارۃ یمین، و من نذ نذراً اطاقہ فلیف بہ۔ " جس نے ایک نذر مان لی اور اس بات کا تعین نہ کیا کہ کس بات کی نذر مانی ہے وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے معصیت کی نذر مانی وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے پورا کرنے کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے وہ پورا کرسکتا ہو وہ اسے پورا کرے " (ابوداؤد)۔ دوسری طرف وہ احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں کفارہ نہیں ہے۔ اوپر نمبر
4
میں جن صاحب کا ذکر آیا ہے کہ انہوں نے دھوپ میں کھڑے رہنے اور کسی سے بات نہ کرنے کی نذر مانی تھی، ان کا قصہ نقل کر کے امام مالک نے مؤطا میں لکھا ہے کہ مجھے کسی ذریعہ سے بھی یہ معلوم نہیں ہوا کہ حضور نے ان کو نذر توڑنے کا حکم دینے کے ساتھ یہ بھی حکم دیا ہو کہ وہ کفارہ ادا کریں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا من حلف علی یمین فراٰی غیرھا خیراً منھا فلیدعھا ولیات الذی ھو خیر فان ترکھا کفار تھا، " جس نے کسی بات کی قسم کھائی ہو اور بعد میں وہ دیکھے کہ اس سے بہتر بات دوسری ہے تو وہ اسے چھوڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہو اور اسے چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ") ابوداؤد)۔ بیہقی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اور حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت کہ " جو کام بہتر ہے وہ کرے اور یہی اس کا کفارہ ہے "۔ ثابت نہیں ہے)۔ امام نووی ان احادیث پر بحث کرتے ہوئے شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ امام مالک، شافعی ابوحنیفہ، داؤد ظاہری اور جمہور علماء رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ معصیت کی نذر باطل ہے اور اسے پورا نہ کرنے پر کفارہ لازم نہیں آتا۔ اور امام احمد کہتے ہیں کہ کفارہ لازم آتا ہے۔
Top