Tafheem-ul-Quran - Al-Anfaal : 28
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّمَآ : درحقیقت اَمْوَالُكُمْ : تمہارے مال وَاَوْلَادُكُمْ : اور تمہاری اولاد فِتْنَةٌ : بڑی آزمائش وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗٓ : پاس اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں23 اور اللہ کےپاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے
سورة الْاَنْفَال 22 ”اپنی امانتوں“ سے مراد وہ تمام ذمہ داریاں ہیں جو کسی پر اعتبار (Trust) کر کے اس کے سپرد کی جائیں، خواہ وہ عہد وفا کی ذمہ داریاں ہوں، یا اجتماعی معاہدات کی، یا جماعت کے رازوں کی، یا شخصی و جماعتی اموال کی، یا کسی ایسے عہدہ و منصب کی جو کسی شخص پر بھروسہ کرتے ہوئے جماعت اس کے حوالے کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة نساء حاشیہ 88)۔ سورة الْاَنْفَال 23 انسان کے اخلاص ایمانی میں جو چیز بالعموم خلل ڈالتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اکثر منافقت، غداری اور خیانت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سے اس کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ مال اور اولاد، جن کی محبت میں گرفتار ہو کر تم عموماً راستی سے ہٹ جاتے ہو، دراصل یہ دنیا کی امتحان گاہ میں تمہارے لیے سامان آزمائش ہیں۔ جسے تم بیٹا یا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اور جسے تم جائیداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی درحقیقت ایک دوسرا پرچہ امتحان ہے۔ یہ چیزیں تمہارے حوالہ کی ہی اس لیے کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے تمہیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق اور حدود کا لحاظ کرتے ہو، کہاں تک اپنے نفس کو جو ان دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے، اسی طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندہ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرت حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے۔
Top