Tafheem-ul-Quran - Al-Anfaal : 30
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ١ؕ وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ
وَاِذْ : اور جب يَمْكُرُ بِكَ : خفیہ تدبیریں کرتے تھے آپ کے بارہ میں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لِيُثْبِتُوْكَ : تمہیں قید کرلیں اَوْ يَقْتُلُوْكَ : یا قتل کردیں تمہیں اَوْ يُخْرِجُوْكَ : یا نکال دیں تمہیں وَيَمْكُرُوْنَ : اور وہ خفیہ تدبیریں کرتے تھے وَيَمْكُرُ اللّٰهُ : اور خفیہ تدبیریں کرتا ہے اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہترین الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنے والا
وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں۔25 وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے
سورة الْاَنْفَال 25 یہ اس موقع کا ذکر ہے جبکہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد ﷺ بھی مدینہ چلے جائیں گے۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہوجائے گا۔ چناچہ انہوں نے آپ کے معاملہ میں ایک آخری فیصلہ کرنے کے لیے دارالنَّدوہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس امر پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدّ باب کس طرح کیا جائے۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کردیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے۔ لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کردیا تو اس کے جو ساتھی قید خانے سے باہر ہونگے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہ کریں گے۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو۔ پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے، بہر حال اس کے وجود سے ہمارے نظام زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہوجائے گا۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ شخص جادو بیان آدمی ہے، دلوں کو موہنے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے، اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نہ معلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنالے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کرکے قلب عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لیے تم پر حملہ آور ہوگا۔ آخر کار ابوجہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسبت تیز دست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یک بارگی محمد ﷺ پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر ڈالیں۔ اس طرح محمد ﷺ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہوجائے گا اور بنو عبد مناف کے لیے ناممکن ہوجائے گا کہ سب سے لڑ سکیں اس لیے مجبوراً خون بہا پر فیصلہ کرنے کے لیے راضی ہوجائیں گے۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا، قتل کے لیے آدمی بھی نامزد ہوگئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کردیا گیا، حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا، لیکن ان کا ہاتھ پڑنے سے پہلے نبی ﷺ ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے اور ان کی بنی بنائی تدبیر عین وقت پر ناکام ہو کر رہ گئی۔
Top