Tafheem-ul-Quran - Al-Anfaal : 39
وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ١ۚ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَقَاتِلُوْهُمْ : اور ان سے جنگ کرو حَتّٰي : یہانتک لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین كُلُّهٗ : سب لِلّٰهِ : اللہ کا فَاِنِ : پھر اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِمَا : جو وہ يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہےاور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔31 پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو اُن کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے
سورة الْاَنْفَال 31 یہاں پھر مسلمانوں کی جنگ کے اسے ایک مقصد کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے پہلے سورة بقر آیت 193 میں بیان کیا گیا تھا۔ اس مقصد کا سلبی جزء یہ ہے کہ فتنہ باقی رہ رہے، اور ایجابی جزء یہ ہے کہ دین بالکل اللہ کے لیے ہوجائے بس یہی ایک اخلاقی مقصد ایسا ہے جس کے لیے لڑنا اہل ایمان کے لیے جائز بلکہ فرض ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے مقصد کی لڑائی جائز نہیں ہے اور نہ اہل ایمان کو زیبا ہے کہ اس میں کسی طرح حصہ لیں۔ (تشریح کے یے ملاحظہ ہو سورة بقرہ، حواشی 204 و 205)
Top