Tafheem-ul-Quran - Al-Anfaal : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور اُن لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دِکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں،38 جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے
سورة الْاَنْفَال 38 اشارہ ہے کفار قریش کی طرف، جن کا لشکر مکہ سے اس شان سے نکلا تھا کہ گانے بجانے والی لونڈیاں ساتھ تھیں، جگہ جگہ ٹھہر کر رقص و سرور اور شراب نوشی کی محفلیں برپا کرتے جا رہے تھے، جو جو قبیلے اور قریے راستہ میں ملتے تھے ان پر اپنی طاقت و شوکت اور اپنی کثرت تعداد اور اپنے سروسامان کا رعب جماتے تھے اور ڈینگیں مارتے تھے کہ بھلا ہمارے مقابلہ میں کون سر اٹھا سکتا ہے۔ یہ تو تھی ان کی اخلاقی حالت۔ ، اور اس پر مزید لعنت یہ تھی کہ ان کے نکلنے کا مقصد ان کے اخلاق سے بھی زیادہ ناپاک تھا۔ وہ اس لیے جان و مال کی بازی لگانے نہیں نکلے تھے کہ حق اور راستی اور انصاف کا علم بلند ہو، بلکہ اس لیے نکلے تھے کہ ایسا نہ ہونے پائے، ور وہ اکیلا گروہ بھی جو دنیا میں اس مقصد حق کے لیے اٹھا ہے ختم کردیا جائے تاکہ اس علم کو اٹھانے والا دنیا بھر میں کوئی نہ رہے۔ اس پر مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم کہیں ایسے نہ بن جانا۔ تمہیں اللہ نے ایمان اور حق پرستی کی جو نعمت عطا کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمہارے اخلاق بھی پاکیزہ ہوں اور تمہارا مقصد جنگ بھی پاک ہو۔ یہ ہدایت اسی زمانہ کے لیے نہ تھی، آج کے لیے بھی ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔ کفار کی فوجوں کا جو حال اس وقت تھا وہی آج بھی ہے۔ قحبہ خانے اور فواحش کے اڈے اور شراب کے پیپے ان کے ساتھ جزلاینفک کی طرح لگے رہتے ہیں۔ خفیہ طور پر نہیں۔ بلکہ علی الاعلان نہایت بےشرمی کے ساتھ وہ عورتوں اور شراب کا زیادہ سے زیادہ راشن مانگتے ہیں اور ان کے سپاہیوں کو خود اپنی قوم ہی سے یہ مطالبہ کرنے میں باک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بڑی سے بڑی تعداد میں ان کی شہوت کا کھلونا بننے کے لیے پیش کرے۔ پھر بھلا کوئی دوسری قوم ان سے کیا امید کرسکتی ہے کہ یہ اس کو اپنی اخلاقی گندگی کی سنڈاس بنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھیں گے۔ رہا ان کا تکبر اور تفاخر تو ان کے ہر سپاہی اور ہر افسر کی چال ڈھال اور انداز گفتگو میں وہ نمایاں دیکھا جاسکتا ہے اور ان میں سے ہر قوم کے مدبرین کی تقریروں میں لا غالب لکم الیوم اور من اشد منا قوة کی ڈینگیں سنی جاسکتی ہیں۔ ان اخلاقی نجاستوں سے زیادہ ناپاک ان کے مقاصد جنگ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نہایت مکاری کے ساتھ دنیا کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے پیش نظر انسانیت کی فلاح کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر درحقیقت ان کے پیش نظر ایک فلاح انسانیت ہی نہیں ہے، باقی سب کچھ ہے۔ ان کی لڑائی کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی زمین میں جو کچھ سارے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے اس پر تنہا ان کی قوم متصرف ہو اور دوسرے اس کے چاکر اور دست نگر بن کر رہیں۔ پس اہل ایمان کو قرآن کی یہ دائمی ہدایت ہے کہ ان فساق و فجار کے طور طریقوں سے بھی بچیں اور ان ناپاک مقاصد میں بھی اپنی جان و مال کھپانے سے پرہیز کریں جن کے لیے یہ لوگ لڑتے ہیں۔
Top