Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 118
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠ ۧ
وَّعَلَي
: اور پر
الثَّلٰثَةِ
: وہ تین
الَّذِيْنَ
: وہ جو
خُلِّفُوْا
: پیچھے رکھا گیا
حَتّٰى
: یہانتک کہ
اِذَا
: جب
ضَاقَتْ
: تنگ ہوگئی
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْاَرْضُ
: زمین
بِمَا رَحُبَتْ
: باوجود کشادگی
وَضَاقَتْ
: اور وہ تنگ ہوگئی
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اَنْفُسُھُمْ
: ان کی جانیں
وَظَنُّوْٓا
: اور انہوں نے جان لیا
اَنْ
: کہ
لَّا مَلْجَاَ
: نہیں پناہ
مِنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
اِلَّآ
: مگر
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
ثُمَّ
: پھر
تَابَ عَلَيْهِمْ
: وہ متوجہ ہوا ان پر
لِيَتُوْبُوْا
: تاکہ وہ توبہ کریں
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
ھُوَ
: وہ
التَّوَّابُ
: توبہ قبول کرنیوالا
الرَّحِيْمُ
: نہایت مہربان
اور اُن تینوں کو بھی اُس نے معاف کیا جن کے معاملے کو ملتوی کر دیا گیا تھا
118
۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجوداُن پر تنگ ہو گئی اور اُن کی اپنی جانیں بھی اُن پر بار ہو نے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ہے، تو اللہ اپنی مہربانی سے اُن کی طرف پلٹا تاکہ وہ اُس کی طرف پلٹ آئیں ، یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔
119
سورة التَّوْبَة
118
نبی ﷺ جب تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تو وہ لوگ معذرت کرنے کے لیے حاضر ہوئے جو پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں
80
سے کچھ زیادہ منافق تھے اور تین سچے مومن بھی تھے۔ منافقین جھوٹے عذرات پیش کرتے گئے اور حضور ان کی معذرت قبول کرتے چلے گئے۔ پھر ان تینوں مومنوں کی باری آئی اور انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کرلیا۔ نبی ﷺ نے ان تینوں کے معاملہ میں فیصلہ کو ملتوی کردیا اور عام مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ جب تک خدا کا حکم نہ آئے، ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق نہ رکھا جائے۔ اسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ (یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ ان تین اصحاب کا معاملہ ان سات اصحاب سے مختلف ہے جن کا ذکر
99
میں گزر چکا ہے۔ انہوں نے باز پرس سے پہلے ہی خود اپنے آپ کو سزا دے لی تھی)۔ سورة التَّوْبَة
119
یہ تینوں صاحب کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کرچکے ہیں، تینوں سچے مومن تھے۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ قربانیاں کرچکے تھے۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی ﷺ کے ساتھ رہے۔ ان خدمات کے باوجود جو سستی اس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہل ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا، ان حضرات نے دکھائی اس پر سخت گرفت کی گئی۔ نبی ﷺ نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے۔
40
دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کردی گئی۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہوگیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔ آخرکار جب ان کے مقاطعہ کو
50
دن ہوگئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا۔ ان تینوں صاحبوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے۔ اپنے بڑھاپے کے زمانہ میں جبکہ وہ نابینا ہوچکے تھے، انہوں نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے، جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلایا کرتے تھے، یہ قصہ خود بیان کیا غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نبی ﷺ جب کبھی مسلمانوں سے شرکت جنگ کی اپیل کرتے تھے، میں اپنے دل میں ارادہ کرلیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آکر سستی کرجاتا تھا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیار ہوتے کیا دیر لگتی ہے۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو ، میں ایک دو روز بعد راستہ ہی میں اس سے جا ملوں گا۔ مگر پھر وہی سستی مانع ہوئی حتٰی کہ وقت نکل گیا۔ اس زمانہ میں جبکہ میں مدینے میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بےحد کڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے۔ جب نبی ﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسب معمول آپ ﷺ نے پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے۔ اس مجلس میں منافقین نے آکر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے۔ یہ
80
سے زیادہ آدمی تھے۔ حضور ﷺ نے ان میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں۔ ان کے ظاہری عذرات کو قبول کرلیا، اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا خدا تمہیں معاف کرے۔ پھر میری باری آئی۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔”خدا کی قسم اگر میں اہل دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا، باتیں بنانی تو مجھے بھی آتی ہیں، مگر آپ کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کر کے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کر دے گا۔ البتہ اگر سچ کہوں تو چاہے آپ ناراض ہی کیوں نہ ہوں، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے پیش کرسکوں، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا“۔ اس پر حضور نے فرمایا ”یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی۔ اچھا، اٹھ جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے“۔ میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑگئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تو نے کوئی عذر کیوں نہ کردیا۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہو کر کوئی بات بنا دوں۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں (مراد بن ربیع اور ہلال بن امیہ) نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی، تو مجھے تسکین ہوگئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے، مگر میں نکلتا تھا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سرزمین بالکل بدل گئی ہے، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسب معمول نبی ﷺ کو سلام کرتا تھا، مگر بس انتظار ہی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے ہونٹ جنبش کریں۔ نماز میں نظریں چرا کر حضور کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں۔ مگر وہاں حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے، اور جہاں میں نے سلام پھیرا کہ آپ نے میری طرف سے نظر ہٹائی۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قتادہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا۔ مگر اس اللہ کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا ”ابو قتادہ، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا ؟“ وہ خاموش رہے۔ میں نے پھر پوچحا۔ وہ پھر خاموش رہے، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ ”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے“۔ اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے نبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہ غَسّان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا۔ میں کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ ”ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے، ہمارے پس آجاؤ، ہم تمہاری قدر کریں گے“۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی، اور اسی وقت اس خط کو چولھے میں جھونک دیا۔ چالیس دن اس حالت پر گزر چکے تھے کہ نبی ﷺ کا آدمی حکم لے کی آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیٰحدہ ہوجاؤ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں ؟ جواب ملا نہیں، بس الگ رہو۔ چناچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا ”مبارک ہو کعب بن مالک“ ! میں یہ سنتے ہی سجدے میں گرگیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ہوگیا ہے۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کو مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہوگئی۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا۔ دیکھا کہ نبی ﷺ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ”تجھے مبارک ہو، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ہے“ میں نے پوچھا یہ معافی حضور کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے ؟ فرمایا خدا کی طرف سے، اور یہ آیات سنائیں۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ﷺ میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں۔ فرمایا ”کچھ رہنے دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے“۔ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیا، باقی سب صدقہ کردیا۔ پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس راست گفتاری کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی ہے اس پر تمام عمر قائم رہوں گا، چناچہ آج تک میں نے کوئی بات جان بوجھ کر خلاف واقعہ نہیں کہی اور خدا سے امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا۔ یہ قصہ اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے جو ہر مومن کے دل نشین ہونے چاہییں سب سے پہلی بات تو اس سے یہ معلوم ہوئی کہ کفر و اسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر اہم اور کتنا نازک ہے کہ اس کشمکش میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار، جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں، بدنیتی سے بھی نہیں نیک نیتی سے، تمام عمر بھی نہیں کسی ایک موقع ہی پر، کوتاہی برت جاتا ہے اس کی بھی زندگی بھر کی عبادت گزاریاں اور دینداریاں خطرے میں پڑجاتی ہیں، حتیٰ کہ ایسے عالی قدر لوگ بھی گرفت سے نہیں بچتے جو بدر و احد اور احزاب و حنین کے سخت معرکوں میں جانبازی کے جوہر دکھا چکے تھے اور جن کا اخلاص و ایمان ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا۔ دوسری بات، جو اس سے کچھ کم اہم نہیں یہ ہے کہ ادائے فرض میں تساہل کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات محض تساہل ہی تساہل میں آدمی کسی ایسے قصور کا مرتکب ہوجاتا ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے، اور اس وقت یہ بات اسے پکڑ سے نہیں بچا سکتی کہ اس نے اس قصور کا ارتکاب بدنیتی سے نہیں کیا تھا۔ پھر یہ قصہ اس معاشرے کی روح کو بڑی خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے بےنقاب کرتا ہے جو نبی ﷺ کی قیادت میں بنا تھا۔ ایک طرف منافقین ہیں جن کی غداریاں سب پر آشکارا ہیں، مگر ان کے ظاہری عذر سن لیے جاتے ہیں اور درگزر کیا جاتا ہے، کیونکہ ان سے خلوص کی امید ہی کب تھی کہ اب اس کے عدم کی شکایت کی جاتی۔ دوسری طرح ایک آزمودہ کار مومن ہے جس کی جاں نثاری پر شبہہ تک کی گنجائش نہیں اور وہ جھوٹی باتیں بھی نہیں بناتا، صاف صاف قصور کا اعتراف کرلیتا ہے مگر اس پر غضب کی بارش برسا دی جاتی ہے، نہ اس پر کہ اس کے مومن ہونے میں کوئی شبہ ہوگیا ہے، بلکہ اس بنا پر مومن ہو کر اس نے وہ کام کیوں کیا جو منافقوں کے کرنے کا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ زمین کے نمک تو تم ہو، تم سے بھی اگر نمکینی حاصل نہ ہوئی تو پھر اور نمک کہاں سے آئے گا۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس سارے قضیہ میں لیڈر جس شان سے سزا دیتا ہے اور پیرو جس شان سے اس سزا کو بھگتا ہے، اور پوری جماعت جس شان سے اس سزا کی نافذ کرتی ہے، اس کا ہر پہلو بےنظیر ہے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کس کی زیادہ تعریف کی جائے۔ لیڈر نہایت سخت سزا دے رہا ہے مگر غصے اور نفرت کے ساتھ نہیں، گہری محبت کے ساتھ دے رہا ہے۔ باپ کی طرح شعلہ بار نگاہوں کا ایک گوشہ ہر وقت یہ خبر دے جاتا ہے کہ تجھ سے دشمنی نہیں ہے بلکہ تیرے قصور پر تیری ہی خاطر دل دکھا ہے۔ تو درست ہوجائے تو یہ سینہ تجھے چمٹا لینے کے لیے بےچین ہے۔ پیرو سزا کی سختی پر تڑپ رہا ہے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کا قدم جادہ اطاعت سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ڈگمگاتا، اور صرف یہی نہیں کہ اس پر غرور نفس اور حمیت جاہلیہ کا کوئی دورہ نہیں پڑتا اور علانیہ استکبار پر اتر آنا تو درکنار وہ دل میں اپنے محبوب لیڈر کے خلاف کوئی شکایت تک نہیں آنے دیتا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ لیڈر کی محبت میں اور زیادہ سرشار ہوگیا ہے۔ سزا کے ان پورے پچاس دنوں میں اس کی نظریں سب سے زیادہ بےتابی کے ساتھ جس چیز کی تلاش میں رہیں وہ یہ تھی کہ سردار کی آنکھوں میں وہ گوشہ التفات اس کے لیے باقی ہے یا نہیں جو اس کی امیدوں کا آخری سہارا ہے۔ گویا وہ ایک قحط زدہ کسان تھا جس کا سارا سرمایہ امید بس ایک ذرا سا ابر تھا جو آسمان کے کنارے پر نظر آتا تھا۔ پھر جماعت کو دیکھیے تو اس کے ڈسپلن اور اس کی صالح اخلاقی اسپرٹ پر انسان عش عش کرجاتا ہے۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ ادھر لیڈر کی زبان سے بائیکاٹ کا حکم نکلا ادھر پوری جماعت نے مجرم سے نگاہیں پھیر لیں۔ جلوت تو درکنار خلوت تک میں کوئی قریب سے قریب رشتہ دار اور کوئی گہرے سے گہرا دوست بھی اسے بات نہیں کرتا۔ بیوی تک اس سے الگ ہوجاتی ہے۔ خدا کا واسطہ دے دے کر پوچھتا ہے کہ میرے خلوص میں تو تم کو شبہ نہیں ہے، مگر وہ لوگ بھی جو مدت العمر سے اس کو مخلص جانتے تھے، صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے نہیں، خدا اور اس کے رسول سے اپنے خلوص کی سند حاصل کرو۔ دوسری طرف اخلاقی اسپرٹ اتنی بلند اور پاکیزہ کہ ایک شخص کی چڑھی ہوئی کمان اترتے ہی مردار خوروں کا کوئی گروہ اس کا گوشت نوچنے اور اسے پھاڑ کھانے کے لیے نہیں لپکتا، بلکہ اس پورے زمانہ عتاب میں جماعت کا ایک ایک فرد اپنے اس معتوب بھائی کی مصیبت پر رنجیدہ اور اس کو پھر سے اٹھا کر گلے لگا لینے کے لیے بےتاب رہتا ہے اور معافی کا اعلان ہوتے ہی لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ جلدی سے جلدی پہنچ کر اس سے ملیں اور اسے خوشخبری پہنچائیں۔ یہ نمونہ ہے اس صالح جماعت کا جسے قرآن دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس پس منظر میں جب ہم آیت زیر بحث کو دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان صاحبوں کو اللہ کے دربار سے جو معافی ملی ہے اور اس معافی کے انداز بیان میں جو رحمت و شفقت ٹپکی پڑ رہی ہے اس کی وجہ ان کا وہ اخلاص ہے جس کا ثبوت انہوں نے پچاس دن کی سخت سزا کے دوران میں دیا تھا۔ اگر قصور کر کے وہ اکڑتے اور اپنے لیڈر کی ناراضی کا جواب غصے اور عناد سے دیتے اور سزا ملنے پر اس طرح بپھرتے جس طرح کسی خود پرست انسان کا غرور نفس زخم کھا کر بپھرا کرتا ہے، اور مقاطعہ کے دوران میں ان کا طرز عمل یہ ہوتا کہ ہمیں جماعت سے کٹ جانا گوارا ہے مگر اپنی خودی کے بت پر چوٹ کھانا گوارا نہیں ہے، اور اگر یہ سزا کا پورا زمانہ وہ اس دوڑ دھوپ میں گزارتے کہ جماعت کے اندر بددلی پھیلائیں اور بددل لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ساتھ ملائیں تاکہ ایک جتھا تیار ہو، تو معافی کیسی، انہیں تو بالیقین جماعت سے کاٹ پھینکا جاتا اور اس سزا کے بعد ان کی اپنی منہ مانگی سزا ان کو یہ دی جاتی کہ جاؤ اب اپنی خودی کے بت ہی کو پوجتے رہو، اعلاء کلمۃ الحق کی جدوجہد میں حصہ لینے کی سعادت اب تمہارے نصیب میں کبھی نہ آئے گی۔ لیکن ان تینوں صاحبوں نے اس کڑی آزمائش کے موقع پر یہ راستہ اختیار نہیں کیا، اگرچہ یہ بھی ان کے لیے کھلا ہوا تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے وہ روش اختیار کی جو ابھی آپ دیکھ آئے ہیں۔ اس روش کو اختیار کر کے انہوں نے ثابت کردیا کہ خدا پرستی نے ان کے سینے میں کوئی بت باقی نہیں چھوڑا ہے جسے وہ پوجیں، اور اپنی پوری شخصیت کو انہوں نے راہ خدا کی جدوجہد میں جھونک دیا ہے اور وہ اپنی واپسی کی کشتیاں اس طرح جلا کر اسلامی جماعت میں آئے ہیں کہ اب یہاں سے پلٹ کر کہیں اور نہیں جاسکتے۔ یہاں کی ٹھوکریں کھائیں گے مگر یہیں مریں گے اور کھپیں گے۔ کسی دوسری جگہ بڑی سے بڑی عزت بھی ملتی ہو تو یہاں کی ذلت چھوڑ کر اسے لینے نہ جائیں گے۔ اس کے بعد اگر انہیں اٹھا کر سینے سے لگا نہ لیا جاتا تو اور کیا کیا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی معافی کا ذکر ایسے شفقت بھرے الفاظ میں فرمایا تھا کہ ”ہم ان کی طرف پلٹے تاکہ وہ ہماری طرف پلٹ آئیں“۔ ان چند لفظوں میں اس حالت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ آقا نے پہلے تو ان بندوں سے نظر پھیرلی تھی، مگر جب وہ بھاگے نہیں بلکہ دل شکستہ ہو کر اسی کے در پر بیٹھ گئے تو ان کی شان وفاداری دیکھ کر آقا سے خود نہ رہا گیا۔ جوش محبت سے بےقرار ہو کر وہ آپ نکل آیا تاکہ انہیں دروازے سے اٹھا لائے۔
Top