Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 126
اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
اَوَ : کیا لَا يَرَوْنَ : وہ نہیں دیکھتے اَنَّھُمْ : کہ وہ يُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہیں فِيْ كُلِّ عَامٍ : ہر سال میں مَّرَّةً : ایک بار اَوْ : یا مَرَّتَيْنِ : دو بار ثُمَّ : پھر لَا يَتُوْبُوْنَ : نہ وہ توبہ کرتے ہیں وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑتے ہیں
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟125 مگر اِس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں
سورة التَّوْبَة 125 یعنی کوئی سال ایسا نہیں گزر رہا ہے جبکہ ایک دو مرتبہ ایسے حالات نہ پیش آجاتے ہوں جن میں ان کا دعوائے ایمان آزمائش کی کسوٹی پر کسا نہ جاتا ہو اور اس کی کھوٹ کا راز فاش نہ ہوجاتا ہو۔ کبھی قرآن میں کوئی ایسا حکم آجاتا ہے جس سے ان کی خواہشات نفس پر کوئی نئی پابندی عائد ہوجاتی ہے، کبھی دین کا کوئی ایسا مطالبہ سامنے آجاتا ہے جس سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے، کبھی کوئی اندرونی قضیہ ایسا رونما ہوجاتا ہے جس میں یہ امتحان مضمر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے دنیوی تعلقات اور اپنے شخصی و خاندانی اور قبائلی دلچسپیوں کی بہ نسبت خدا اور اس کا رسول اور اس کا دین کس قدر عزیز ہے۔ ، کبھی کوئی جنگ ایسی پیش آجاتی ہے جس میں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ یہ جس دین پر ایمان لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان کی خاطر جان، مال، وقت اور محنت کا کتنا ایثار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر صرف یہی نہیں کہ منافقت کی وہ گندگی جو ان کے جھوٹے اقرار کے نیچے چھپی ہوئی ہے کھل کر منظر عام پر آجاتی ہے بلکہ ہر مرتبہ جب یہ ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر بھاگتے ہیں تو ان کے اندر کی گندگی پہلے سے کچھ زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
Top