Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 58
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ١ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يَّلْمِزُكَ : طعن کرتا ہے آپ پر فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقات فَاِنْ : سو اگر اُعْطُوْا : انہیں دیدیا جائے مِنْهَا : اس سے رَضُوْا : وہ راضی ہوجائیں وَاِنْ : اور اگر لَّمْ يُعْطَوْا : انہیں نہ دیا جائے مِنْهَآ : اس سے اِذَا : اسی وقت هُمْ : وہ يَسْخَطُوْنَ : ناراض ہوجاتے ہیں
اے نبی ؐ ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں۔اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جائیں ، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔57
سورة التَّوْبَة 57 عرب میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے تمام ان باشندوں پر جو ایک مقرر مقدار سے زائد مال رکھتے تھے، باقاعدہ زکوٰۃ عائد کی گئی تھی اور وہ ان کی زرعی پیداوار سے ان کے مویشیوں سے ان کے اموال تجارت سے ان کے معدنیات سے اور ان کے سونے چاندی کے ذخائر سے 2-1/2 فی صدی، 5 فی صدی، 100 فی صدی کی مختلف شرحوں کے مطابق وصول کی جاتی تھی۔ یہ سب اموال زکوٰۃ ایک منظم طریقہ سے وصول کیے جاتے اور ایک مرکز پر جمع ہو کر منظم طریقہ سے خرچ کیے جاتے۔ اس طرح نبی ﷺ کے پاس ملک کے اطراف سے اتنی دولت سمٹ کر آتی اور آپ کے ہاتھوں خرچ ہوتی تھی جو عرب کے لوگوں نے کبھی اس سے پہلے کسی ایک شخص کے ہاتھوں جمع اور تقسیم ہوتے نہیں دیکھی تھی۔ دنیا پرست منافقین کے منہ میں اس دولت کو دیکھ کر پانی بھر بھر آتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بہتے ہوئے دریا سے ان کو خوب سیر ہو کر پینے کا موقع ملے، مگر یہاں پلانے والا خود اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر اس دریا کے ایک ایک قطرے کو حرام کرچکا تھا اور کوئی یہ توقع نہ کرسکتا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے مستحق لوگوں کے سوا کسی اور کے لب تک جام پہنچ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین نبی ﷺ کی تقسیم صدقات کو دیکھ دیکھ کر دلوں میں گھٹتے تھے اور تقسیم کے موقع پر آپ کو طرح طرح کے الزامات سے مطعون کرتے تھے۔ دراصل شکایت تو انہیں یہ تھی کہ اس مال پر ہمیں دست درازی کا موقع نہیں دیا جاتا، مگر اس حقیقی شکایت کو چھپا کر وہ الزام یہ رکھتے تھے کہ مال کی تقسیم انصاف سے نہیں کی جاتی اور اس میں جانب داری سے کام لیا جاتا ہے۔
Top