Tafseer-al-Kitaab - Yunus : 49
قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ؕ اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَمْلِكُ : نہیں مالک ہوں میں لِنَفْسِيْ : اپنی جان کے لیے ضَرًّا : کسی نقصان وَّلَا نَفْعًا : اور نہ نفع اِلَّا : مگر مَا : جو شَآءَ اللّٰهُ : چاہے اللہ لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر ایک امت کے لیے ہر ایک امت کے لیے اَجَلٌ : ایک وقت مقررہر ایک امت کے لیے اِذَا : جب جَآءَ : آجائے گا اَجَلُھُمْ : ان کا وقت فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : پس نہ تاخیر کریں گے وہ سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : جلدی کریں گے وہ
(اے پیغمبر، تم ان سے) کہہ دو کہ (یہ معاملہ میرے اختیار میں نہیں کہ بتلا دوں کہ کب واقع ہوگا) میں تو اپنی ذات کے لئے (بھی) نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا بجز اس کے کہ جتنا اللہ چاہے۔ ہر امت کے لئے (پاداش عمل کا) ایک وقت مقرر ہے۔ جب ان کا (وہ) وقت آ پہنچتا ہے تو (اس سے) نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
[27] مطلب یہ ہے کہ اللہ جلد باز نہیں ہے اس کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ جس وقت رسول کی دعوت کسی شخص یا گروہ کو پہنچی اور اس نے اس کو ماننے سے انکار کیا یا ماننے میں تامل کیا اس پر فوراً عذاب کا فیصلہ نافذ کردیا گیا۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ ہر فرد کو اس کی انفرادی حیثیت کے مطابق اور ہر گروہ کو اس کی اجتماعی حیثیت کے مطابق سوچنے سنبھلنے کے لئے کافی وقت دیتا ہے اور اس بات کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی مہلت ملنی چاہئے۔ پھر وہ مہلت جب پوری ہوجاتی ہے اور وہ شخص یا گروہ اپنی باغیانہ روش سے باز نہیں آتا تب اللہ تعالیٰ اس پر عذاب کا فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ یہ فیصلے کا وقت اللہ کا مقرر کردہ مدت سے نہ ایک گھڑی پہلے آسکتا ہے اور نہ وقت آجانے کے بعد ایک لمحہ ٹل سکتا ہے۔
Top