Tafseer-al-Kitaab - Yunus : 87
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف مُوْسٰى : موسیٰ وَاَخِيْهِ : اور اس کا بھائی اَنْ تَبَوَّاٰ : کہ گھر بناؤ تم لِقَوْمِكُمَا : اپنی قوم کے لیے بِمِصْرَ : مصر میں بُيُوْتًا : گھر وَّاجْعَلُوْا : اور بناؤ بُيُوْتَكُمْ : اپنے گھر قِبْلَةً : قبلہ رو وَّاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی (ہارون) پر وحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں مکانات بناؤ اور اپنے مکانوں کو قبلہ رخ تعمیر کرو اور (ان پر) نماز قائم کرو اور ایمان والوں کو خوشخبری بھی سنا دو (کہ اب تمہاری نجات کا وقت قریب آگیا) ۔
[33] مصر میں حکومت کے تشدد سے اور خود بنی اسرائیل میں اپنے ضعف ایمانی کی وجہ سے بنی اسرائیل کے ہاں نماز باجماعت کا نظام ختم ہوچکا تھا اور یہ ان کی دینی روح پر موت طاری ہونے کا ایک بہت بڑا سبب تھا۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ اس نظام کو ازسرنو قائم کریں اور مصر میں چند مکان اس غرض کے لیے تعمیر کرلیں کہ وہاں باجماعت نماز ادا کی جائے۔ کیونکہ ایک بگڑی ہوئی اور بکھری ہوئی مسلمان قوم میں دینی روح کو پھر سے زندہ کرنے اور اس کی منتشر طاقت کو ازسرنو مجتمع کرنے کے لیے اسلامی طرز پر جو کوشش بھی کی جائے گی اس کا پہلا قدم لازماً یہی ہوگا کہ اس میں نماز باجماعت کا نظام قائم کیا جائے۔ ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرانے کا مفہوم یہ ہے کہ ان کو ساری قوم کے لیے مرکز اور مرجع ٹھہرایا جائے۔ اس کے بعد ہی '' نماز قائم کرو '' کا مطلب یہ ہے کہ متفرق طور پر نماز پڑھ لینے کی بجائے لوگ ان مقررہ مقامات پر جمع ہو کر نماز پڑھا کریں کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں '' اقامت صلوٰۃ '' جس چیز کا نام ہے اس کے مفہوم میں لازماً نماز باجماعت بھی شامل ہے۔ نیز ملاحظہ ہو سورة بقرہ حاشیہ 4 صفحہ 92۔
Top