Tafseer-al-Kitaab - Yunus : 98
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ
فَلَوْلَا : پس کیوں نہ كَانَتْ : ہوتی قَرْيَةٌ : کوئی بستی اٰمَنَتْ : کہ وہ ایمان لاتی فَنَفَعَهَآ : تو نفع دیتا اس کو اِيْمَانُهَآ : اس کا ایمان اِلَّا : مگر قَوْمَ يُوْنُسَ : قوم یونس لَمَّآ : جب اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے كَشَفْنَا : ہم نے اٹھا لیا عَنْھُمْ : ان سے عَذَابَ : عذاب الْخِزْيِ : رسوائی فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَمَتَّعْنٰھُمْ : اور نفع پہنچایا انہیں اِلٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
چناچہ کوئی بستی (عذاب دیکھ کر) ایمان نہ لائی کہ اس کا ایمان لانا اسے نفع پہنچاتا بجز قوم یونس کے۔ جب وہ لوگ (عذاب آتا ہوا دیکھ کر جھٹ سے) ایمان لے آئے تو ہم نے ان پر سے رسوائی کے عذاب کو دنیوی زندگی میں ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لئے زندگی سے بہرہ مند ہونے (کا موقع) دیا۔
[42] مفسرین نے عذاب ٹل جانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یونس (علیہ السلام) اپنی نافرمان قوم کو عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ کی اجازت کے بغیر بستی سے چلے گئے تھے۔ اس لئے جب آثار عذاب ظاہر ہونا شروع ہوئے تو پوری قوم نے اللہ تعالیٰ کے روبرو گریہ زاری شروع کی اور ایمان لے آئی لہذا عذاب ہٹا لیا گیا۔
Top