Tafseer-al-Kitaab - Hud : 31
وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّ لَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًا١ؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١ۖۚ اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لَكُمْ : تمہیں عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ اللّٰهِ : اللہ کے خزانے وَ : اور لَآ اَعْلَمُ : میں نہیں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ وَّ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہیں تَزْدَرِيْٓ : حقیر سمجھتی ہیں اَعْيُنُكُمْ : تمہاری آنکھیں لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ : ہرگز نہ دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ خَيْرًا : کوئی بھلائی اَللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو کچھ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں اِنِّىْٓ : بیشک میں اِذًا : اس وقت لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : البتہ ظالموں سے
اور میں تم سے یہ تو کہتا نہیں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ (میرا یہ دعویٰ ہے کہ) میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ میں (اپنی نسبت) کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میں ان لوگوں کے بارے میں جن کو تمہاری نگاہیں حقیر دیکھتی ہیں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اللہ انھیں بھلائی دے گا ہی نہیں۔ اللہ ہی خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالموں میں سے ہوں گا۔
[16] نوح (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کی نبوت کے بارے میں تین شبہ کئے تھے۔ ایک شبہ تو یہ تھا کہ تم ہماری نظر میں انسان ہو اس پر آپ نے جواب دیا کہ میں کب کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ یعنی میں نے اپنی دعوت کو فرشتہ ہونے پر موقوف نہیں کیا تھا کہ تمہیں اعتراض کا موقع ملتا کہ جتاتے تو ہو فرشتہ اور ہو بشر۔ ان کا دوسرا شبہ یہ تھا کہ ہم تم میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے، یعنی تم مال و دولت میں ہم سے زیادہ نہیں ہو۔ جواب میں فرمایا کہ تمہارا یہ اعتراض بےمحل ہے کیونکہ میں نے تم سے کبھی یہ نہیں کہا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ میں نے کبھی مال و دولت کی فضیلت نہیں جتائی۔ ان کا تیسرا شبہ یہ تھا کہ تمہاری پیروی رذیلوں کے سوا کسی نے نہیں کی۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں غیب جانتا ہوں۔ کسی کے باطن پر حکم لگانا اس کا کام ہے جو غیب کا علم رکھتا ہو۔ تم کس طرح کہتے ہو کہ وہ دل سے ایمان نہیں لائے اور شرع میں ظاہر ہی کا اعتبار ہے۔ [17] یعنی اگر میں ان کے ایمان ظاہر کو جھٹلا کر ان کے باطن پر الزام لگاؤں۔
Top