Tafseer-al-Kitaab - Hud : 74
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب ذَهَبَ : جاتا رہا عَنْ : سے (کا) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم الرَّوْعُ : خوف وَجَآءَتْهُ : اس کے پاس آگئی الْبُشْرٰي : خوشخبری يُجَادِلُنَا : ہم سے جھگڑنے لگا فِيْ : میں قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
پھر جب ابراہیم (کے دل) سے خوف دور ہوگیا اور (اولاد کی) خوشخبری (بھی) ملی تو وہ لگا قوم لوط کے بارے میں ہم سے جھگڑنے۔
[41] یعنی ادھر سے مطمئن ہوئے تو فوراً قوم لوط کے بارے میں فرشتوں سے بحث شروع کردی جس کا خلاصہ سورة عنکبوت میں بیان فرمایا کہ فرشتوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو مطلع کیا کہ ہم ان بستیوں کو ہلاک کرنے آئے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) بولے کہ ان میں تو خود لوط موجود ہیں پھر ایک پیغمبر کے موجود ہوتے کیسے ہلاک کی جاسکتی ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ ہم سب کو جانتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں۔ لوط اور اس کے متعلقین کو وہاں سے علیحدہ کر کے عذاب نازل کیا جائے گا۔ اس بحث کو یہاں جھگڑے سے تعبیر فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی فطری شفقت اور رحمدلی سے اس قوم پر ترس کھا کر اللہ تعالیٰ کی جناب میں کچھ سفارش کرنا چاہتے تھے۔ اس کا جواب دیا کہ اس کا خیال چھوڑ دو ۔ ان ظالموں کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اب اللہ کا حکم واپس نہیں ہوسکتا۔ ان پر عذاب آ کر رہے گا۔
Top