Tafseer-al-Kitaab - Al-Hijr : 88
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
لَا تَمُدَّنَّ : ہرگز نہ بڑھائیں آپ عَيْنَيْكَ : اپنی آنکھیں اِلٰى : طرف مَا مَتَّعْنَا : جو ہم نے برتنے کو دیا بِهٖٓ : اس کو اَزْوَاجًا : کئی جوڑے مِّنْهُمْ : ان کے وَلَا تَحْزَنْ : اور نہ غم کھائیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَاخْفِضْ : اور جھکا دیں آپ جَنَاحَكَ : اپنے بازو لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اور تم آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو اس (متاع دنیا) کی طرف جن سے ہم نے مختلف لوگوں کو بہرہ مند کیا ہے اور نہ ان (کے حال) پر غم کھاؤ اور (انہیں چھوڑ کر) مومنوں کی طرف جھکو
[30] آیت میں خطاب اگرچہ نبی ﷺ سے ہے مگر فی الحقیقت مومنوں کی وہ ابتدائی جماعت مخاطب ہے جو مکہ میں ایمان لائی تھی اور مظلومی و بےسروسامانی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ فرمایا تم دیکھتے ہو کہ مخالفوں کے پاس ہر طرح کی دنیوی آسائشیں ہیں اور تمہارے پاس ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں۔ لیکن تم بھولتے ہو، تمہارے پاس بھی ایک چیز ہے جس سے تمہارے مخالف یک قلم تہی دست ہیں اور وہ اللہ کا کلام ہے۔ اگر یہ نعمت تمہارے پاس موجود ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ تم مخالفوں کی موجودہ خوش حالیوں کو حسرت و رشک کی نظر سے دیکھو۔ [31] یعنی ان کے اس حال پر دل نہ کڑھاؤ کہ وہ اپنے خیر خواہ کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں اور اپنی بدعملیوں کو اپنی خوبیاں سمجھے بیٹھے ہیں۔ [32] یعنی ان سے شفقت سے پیش آؤ۔
Top