Tafseer-al-Kitaab - An-Nahl : 113
وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ جَآءَهُمْ : بیشک ان کے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْهُمْ : ان میں سے فَكَذَّبُوْهُ : سو انہوں نے اسے جھٹلایا فَاَخَذَهُمُ : تو انہیں آپکڑا الْعَذَابُ : عذاب وَهُمْ : اور وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور (پھر) ان کے پاس ایک رسول بھی انہی میں سے آیا (اور کامیابی وسعادت کی راہ کی دعوت دی) مگر انہوں نے اسے جھٹلایا۔ اس پر عذاب (الٰہی) نے ان کو آن پکڑا اس حال میں کہ وہ (اپنے حق میں) ظالم تھے۔
[66] اللہ تعالیٰ نے جس بستی کی مثال بیان فرمائی ہے اس کے نام کی صراحت نہیں فرمائی لیکن خود مکہ اس کا مصداق معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی اہل مکہ امن و اطمینان سے رہتے تھے۔ تمام عرب میں لوٹ مار مچی رہتی تھی مگر خانہ کعبہ کی حرمت کی وجہ سے کوئی اہل مکہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا اور باوجودیکہ سرزمین مکہ ریگستان ہے اور اس میں کھیتی باڑی کی صلاحیت نہیں تاہم اطراف و جوانب کی پیداوار بافراط مکہ کو کھنچی چلی آتی تھی۔ یہ امن و اطمینان اور روزی کا سامان اہل مکہ کے حق میں بڑا احسان الٰہی تھا مگر وہ حقیقی منعم اور محسن یعنی اللہ کو بھول کر بت پرستی کرنے لگے تو اللہ نے ان کی ہدایت کے لئے محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا لیکن انہوں نے آپ کی قدر نہ جانی اور جھٹلا دیا تو اس کفران نعمت اور انکار رسول کی پاداش میں سات برس مبتلائے قحط ہوئے۔
Top