Tafseer-al-Kitaab - An-Nahl : 21
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ١ۚ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ١ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۠   ۧ
اَمْوَاتٌ : مردے غَيْرُ : نہیں اَحْيَآءٍ : زندہ وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں جانتے اَيَّانَ : کب يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
وہ مردہ ہیں نہ کہ زندہ، اور (ان کو اتنی بھی) خبر نہیں کہ کب (دوبارہ زندہ کر کے انہیں) اٹھایا جائے گا۔
[14] آیت کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ جن معبودان باطل کی تردید کی جا رہی ہے وہ نہ تو لکڑی یا مٹی کے بت ہیں اور نہ ہی جن و فرشتے۔ کیونکہ بتوں کے معاملے میں مرنے کے بعد زندہ کر کے اٹھائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہے جن و فرشتے تو وہ زندہ ہیں۔ لہذا جن ہستیوں کو حاجت روا سمجھ کر پکارا جاتا ہے وہ لامحالہ گزرے ہوئے انسان ہی ہوسکتے ہیں جیسے انبیاء اولیائے کرام اور بزرگان دین وغیرہ۔ جن کو نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لئے پکارنا شروع کردیتے ہیں چناچہ مشرکین عرب کے بہت سے معبود گزرے ہوئے انسان ہی تھے۔ بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ ود ' سواع ' یغوث ' یعوق ' نسریہ سب گزرے ہوئے اولیاء کے نام ہیں جن کے بعد کی نسلوں نے بت بنا لئے اور ان کی پوجا کرنے لگے۔ اسی طرح کی روایات مشرکین عرب کے مشہور بتوں لات اور عزیٰ ، اساف اور نائلہ کے بارے میں بھی ہیں۔
Top