Tafseer-al-Kitaab - Al-Israa : 33
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا
وَ : اور لَا تَقْتُلُوا : نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : وہ جو کہ حَرَّمَ اللّٰهُ : اللہ نے حرام کیا اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَمَنْ : اور جو قُتِلَ : مارا گیا مَظْلُوْمًا : مظلوم فَقَدْ جَعَلْنَا : تو تحقیق ہم نے کردیا لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارث کے لیے سُلْطٰنًا : ایک اختیار فَلَا يُسْرِفْ : پس وہ حد سے نہ بڑھے فِّي الْقَتْلِ : قتل میں اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے مَنْصُوْرًا : مدد دیا گیا
اور (دیکھو، ) کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے والی (وارث) کو اختیار دے دیا ہے۔ سو (اسے چاہئے کہ) قتل (کا بدلہ لینے) میں زیادتی نہ کرے۔ بیشک اس کی مدد کی جائے گی۔
[27] یعنی ہم نے مقتول کے وارثوں کو قاتل کے اوپر پورا اختیار دے دیا ہے کہ وہ چاہیں تو اس سے قصاص لیں، چاہیں تو خوں بہا لیں اور اگر چاہیں تو معاف بھی کرسکتے ہیں۔ [28] یعنی یہ نہ کرے کہ جوش انتقام میں قاتل کے ساتھ غیر قاتل کو بھی قتل کر ڈالے یا قتل کے ایسے طریقے اختیار کرے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ مثلاً قاتل کو عذاب دے کر مارنا یا آگ میں جلانا۔ [29] اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی قانون میں قتل کے معاملے میں اصل مدعی کی حیثیت حکومت کی نہیں بلکہ مقتول کے وارثوں کی ہے۔ حکومت کا کام صرف یہ ہے کہ مقتول کے وارثوں کی مرضی ٹھیک ٹھیک نافذ کرا دے۔ حکومت مدعی صرف اس شکل میں ہوگی جب مقتول لاوارث ہو یا وارث ہوں تو سہی لیکن کسی سبب سے ان کو مقتول کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہ رہ گئی ہو۔
Top