Tafseer-al-Kitaab - Al-Kahf : 82
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا١ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ١ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا٢ؕ۠   ۧ
وَاَمَّا : اور رہی الْجِدَارُ : دیوار فَكَانَ : سو وہ تھی لِغُلٰمَيْنِ : دو بچوں کی يَتِيْمَيْنِ : دو یتیم فِي الْمَدِيْنَةِ : شہر میں۔ کے وَكَانَ : اور تھا تَحْتَهٗ : اس کے نیچے كَنْزٌ : خزانہ لَّهُمَا : ان دونوں کے لیے وَكَانَ : اور تھا اَبُوْهُمَا : ان کا باپ صَالِحًا : نیک فَاَرَادَ : سو چاہا رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ يَّبْلُغَآ : کہ وہ پہنچیں اَشُدَّهُمَا : اپنی جوانی وَيَسْتَخْرِجَا : اور وہ دونوں نکالیں كَنْزَهُمَا : اپنا خزانہ رَحْمَةً : مہربانی مِّنْ رَّبِّكَ : سے تمہارا رب وَمَا فَعَلْتُهٗ : اور یہ میں نے نہیں کیا عَنْ : سے اَمْرِيْ : اپنا حکم (مرضی) ذٰلِكَ : یہ تَاْوِيْلُ : تعبیر (حقیقت) مَا : جو لَمْ تَسْطِعْ : تم نہ کرسکے عَّلَيْهِ : اس پر صَبْرًا : صبر
اور رہی وہ دیوار تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی ہے اور اس (دیوار) کے نیچے ان کا خزانہ گڑا ہوا ہے اور ان کا باپ (ایک مرد) صالح تھا اس لئے تمہارے رب نے چاہا کہ دونوں لڑکے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ (یہ سارے کام) تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر (کئے گئے) ہیں۔ (ان میں سے) کوئی کام میں نے اپنے اختیار سے نہیں کیا۔ یہ حقیقت ہے ان (باتوں) کی جن پر تم صبر نہ کرسکے۔
[26] یعنی ان افعال خلاف شریعت ظاہر میں سے کوئی عمل بھی میری ذاتی رائے یا اجتہاد کا نہیں۔ سب الہامات الٰہی کے تابع ہوئے ہیں۔ [27] یہ قصہ سنانے سے کفار اور مومنین دونوں کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ اس دنیا میں معاملات کی حقیقت وہی نہیں ہوا کرتی جو بظاہر دکھائی دیا کرتی ہے۔ کتنی ہی اچھائیاں ہیں جو فی الحقیقت برائیاں ہوتی ہیں اور کتنی ہی برائیاں ہیں جو فی الحقیقت اچھائیاں ہوتی ہیں۔ انسانی عقل صرف ظواہر دیکھ کر حکم لگا دیتی ہے مگر نہیں جانتی کہ ان ظواہر کی تہہ میں کیسے حقائق پوشیدہ ہیں۔ سرکشوں کے لئے اس وقت کامرانیاں ہیں اور مومنوں کے لئے محرومیاں۔ لیکن کیا فی الحقیقت سرکشوں کی کامرانیاں کامرانیاں ہیں اور مومنوں کی محرومیاں محرومیاں ؟ اگر ظواہر کا پردہ اٹھ جائے تو حقیقت حال منکشف ہوجائے۔ لیکن حکمت الٰہی یہی ہے کہ پردہ نہ اٹھے کیونکہ اسی پردے سے عمل کی ساری آزمائش ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ خضر (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے جن احکام کے تحت کام کئے تھے ان کی حیثیت تشریعی نہ تھی کیونکہ کسی شریعت میں بھی کسی انسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کی مملوکہ چیز کو خراب کردے اور کسی دوسرے انسان کو بےقصور قتل کر ڈالے۔ اس لئے یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ یہ احکام اپنی نوعیت میں اللہ تعالیٰ کے ان تکوینی احکام سے مشابہت رکھتے ہیں جن کے تحت دنیا میں کسی کو بیمار کیا جاتا ہے، کسی کو تندرست کیا جاتا ہے، کسی کو موت دی جاتی ہے، کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے، کسی کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں۔ اب اگر یہ تکوینی احکام ہیں تو ان کے مخاطب صرف فرشتے ہی ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں شرعی جواز و عدم جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور کیونکہ قرآن میں اور صحیح احادیث میں اس بات کی تصریح نہیں کہ خضر (علیہ السلام) انسان تھے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ خضر (علیہ السلام) انسان نہ تھے بلکہ فرشتوں میں سے یا اللہ کی کسی اور ایسی مخلوق میں سے تھے جو شریعت کی مکلف نہیں ہے۔
Top