Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 73
وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا ذُكِّرُوْا : جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے احکام سے لَمْ يَخِرُّوْا : نہیں گرپڑتے عَلَيْهَا : ان پر صُمًّا : بہروں کی طرح وَّعُمْيَانًا : اور اندھوں کی طرح
اور وہ کہ جب انھیں ان کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی جائے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔
وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ۔۔ : ”بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے“ بلکہ وہ انھیں نہایت غور و فکر سے سنتے اور ان کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں۔ اس میں کفار پر چوٹ ہے کہ وہ اپنے رب کی آیات سن کر ذرہ بھر متاثر نہیں ہوتے، بلکہ اپنے کفر پر سختی سے جمے رہتے ہیں۔ نوح ؑ نے اپنی قوم کے کفار کا یہی نقشہ کھینچا ہے، فرمایا : (وَاِنِّىْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَهُمْ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا) [ نوح : 7 ] ”اور بیشک میں نے جب بھی انھیں دعوت دی، تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور اڑ گئے اور تکبر کیا، بڑا تکبر کرنا۔“ کفار کی اس حالت کے بیان کے لیے دیکھیے سورة حم السجدہ (5، 26)۔ زمخشری نے فرمایا کہ اس کا معنی یہ نہیں کہ رحمٰن کے بندے آیات کے ساتھ نصیحت سن کر گرتے نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اندھے بہرے ہو کر نہیں گرتے بلکہ سنتے اور دیکھتے ہوئے گرجاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ) [ السجدۃ : 15 ] ”ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انھیں ان کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گرپڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔“ اور فرمایا : (اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا) [ مریم : 58 ] ”جب ان پر رحمٰن کی آیات پڑھی جاتی تھیں وہ سجدہ کرتے اور روتے ہوئے گرجاتے تھے۔“
Top