Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 41
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَاَقِیْمُوْا الصَّلَاةَ : اور تم نماز قائم کرو وَاٰتُوْا الزَّکَاةَ : اور دیتے رہوتم زکوۃ وَمَا : اور جو تُقَدِّمُوْا : آگے بھیجو گے لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے مِنْ خَيْرٍ : بھلائی تَجِدُوْهُ : تم اسے پالو گے عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللہ : اللہ بِمَا : جو کچھ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے
اے پیغمبر ! ہم نے سب لوگوں کی ہدایت کے لیے آپ پر کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے، اب جو ہدایت حاصل کرے گا اپنے لیے کرے گا، اور جو گمراہ ہوگا اس کی گمراہی کا وبال اسی پر پڑے گا، آپ ان پر کوئی داروغہ مقرر نہیں کیے گئے ہو
اِنَّـآ اَنْزَلْـنَا عَلَیْکَ الْـکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ج فَمَنِ اھْتَدٰی فَلِنَفْسِہٖ ج وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا ج وَمَـآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍ ۔ (الزمر : 41) (اے پیغمبر ! ہم نے سب لوگوں کی ہدایت کے لیے آپ پر کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے، اب جو ہدایت حاصل کرے گا اپنے لیے کرے گا، اور جو گمراہ ہوگا اس کی گمراہی کا وبال اسی پر پڑے گا، آپ ان پر کوئی داروغہ مقرر نہیں کیے گئے ہو۔ ) رسول پر ذمہ داری صرف اتمامِ حجت کی ہے اللہ تعالیٰ کے رسول کے دل میں انسانوں کے لیے جو غایت درجہ ہمدردی اور محبت ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہدایت کو قبول نہ کرنے والوں کے سلسلے میں انتہائی پریشان رہتا ہے۔ گزشتہ آیت میں اظہارِبراءت کے باوجود آنحضرت ﷺ اس احساس کی گرفت سے نکل نہیں سکے تھے۔ اس لیے پروردگار نے مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی اور رسالت کی ذمہ داری سے آپ کو گراں بار کیا۔ اس کا مقصد صرف تھا کہ اس کتاب کے ذریعے حق و باطل کو بالکل ممیز کردیا جائے اور آپ کی رسالت کے واسطے سے حق کی قبولیت کو ان کے لیے آسان کردیا جائے۔ چناچہ آپ نے اس ذمہ داری کو مقدور سے بڑھ کر انجام دیا۔ آپ نے اپنی پوری شخصیت اپنی ساری توانائیاں اور اپنے تمام تر وسائل اس راستے میں جھونک دیئے۔ اس لیے کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ آپ نے احقاقِ حق، ابطالِ باطل اور دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں خدا نہ کرے کسی کوتاہی کا ثبوت دیا ہے۔ آپ اپنی ذمہ داری ادا کرچکے۔ اس کے باوجود اگر کچھ لوگ ایمان و اسلام سے محروم رہے تو یہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ کتاب کے نزول اور منصب رسالت پر آپ کے تقرر کے بعد آپ نے جس خوش اسلوبی سے اللہ تعالیٰ کے دین کو لوگوں کے لیے آسان کیا، دماغوں کو اس کی قبولیت کے لیے کھولا، اشتباہات و اشکالات کے کانٹے چن چن کر نکالے اور حق کے حق ہونے اور باطل کے باطل ہونے کو اس طرح مبرہن کردیا کہ عقل کے اندھوں کے سوا ہر شخص اس کی روشنی کو دیکھ سکتا تھا۔ اب اگر کوئی شخص اس کی قبولیت سے محروم رہتا ہے تو اس کا وبال اس پر پڑے گا۔ اور جو اس ہدایت کے سرچشمے سے سیراب ہوتا ہے تو وہ اپنی قسمت کو سنوارے گا۔ آپ اپنی ذمہ داری ادا کرچکے، ہم نے اسی حد تک آپ کو ذمہ دار بنایا تھا۔ آپ پر یہ ذمہ داری ہرگز نہیں ڈالی گئی تھی کہ آپ ضرور ان کو ایمان و اسلام کے راستے پر لا کھڑا کریں۔ آپ بفضلہ تعالیٰ اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے ہیں اب اس دعوت کے جو مخاطب ہیں ان کی قسمت ترازو میں ہے۔
Top