Tafseer-al-Kitaab - Al-Baqara : 124
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذِ : اور جب ابْتَلٰى : آزمایا اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم رَبُّهٗ : ان کا رب بِکَلِمَاتٍ : چند باتوں سے فَاَتَمَّهُنَّ : وہ پوری کردیں قَالَ : اس نے فرمایا اِنِّيْ : بیشک میں جَاعِلُکَ : تمہیں بنانے والا ہوں لِلنَّاسِ : لوگوں کا اِمَامًا : امام قَالَ : اس نے کہا وَ : اور مِنْ ذُرِّيَّتِي : میری اولاد سے قَالَ : اس نے فرمایا لَا : نہیں يَنَالُ : پہنچتا عَهْدِي : میرا عہد الظَّالِمِينَ : ظالم (جمع)
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو ارشاد ہوا کہ ہم تم کو لوگوں کا پیشوا بنانے والے ہیں۔ (ابراہیم نے) عرض کیا '' اور کیا میری نسل سے بھی (یہ وعدہ ہے) ؟ '' فرمایا : ہمارا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا
[82] قرآن میں مختلف مقامات پر ان تمام سخت آزمائشوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے جن سے گزر کر ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو اس بات کا اہل ثابت کیا تھا کہ انہیں بنی نوع انسان کا امام و راہنما بنایا جائے۔ اولوالعزم پیغمبر۔ جدِّ امجد نوح (علیہ السلام) ۔ جن سے نویں پشت میں سلسلہ نسب جا ملتا ہے۔ تورات کی رو سے آپ 2200 ق۔ م عراق کے قصبہ ار میں پیدا ہوئے۔ قرآن مجید میں آپ (علیہ السلام) کا ذکر چالیس 40 سے زیادہ مقامات پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ اور پیارے نبی کو '' امام الناس '' (البقرہ : 144) '' حنیف اور مسلم '' (آل عمران : 76 صفحہ 031) '' خلیل '' (النساء : 125 صفحہ 802) '' امت '' (النحل : 120، صفحہ 426) القاب سے یاد کیا ہے۔ اکثر انبیاء کرام آپ ہی کی اولاد میں سے ہیں۔ قرآن حکیم کی رو سے آپ کو بچپن ہی میں رشد اور قلب سلیم عطا ہوا اور کائنات کے مشاہدے سے آپ کو یقین کامل حاصل ہوا (الانعام : 75، صفحہ 300) اور حیات بعدالموت کے راز سے آگاہی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے تشفی فرمائی۔ (البقرہ : 26 صفحہ 41) آپ اپنی قوم کے شرک سے جس طرح متنفر اور متصادم ہوئے اس سے آپ کی عظمت وجلالت، عزیمت واستقامت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کا اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنی قوم کے بتوں کو پاش پاش کرنا، آپ (علیہ السلام) کو اس جرم میں آگ میں ڈالا جانا، آپ (علیہ السلام) کا خاندان، جائیداد اور قوم وطن سب کو چھوڑ کر ہجرت کرنا اور دشت عرب میں حکم الٰہی کی تعمیل میں بےدریغ اپنے اکلوتے اور محبوب فرزند کی گردن پر چھری چلانا اس قسم کے عظیم کارناموں سے آپ (علیہ السلام) کی زندگی کا ہر ورق نورانی ہے۔ [38] یعنی منصب اور امامت کے لئے محض نسل و نسب ہی کافی نہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح بھی حاصل کرنا ہوگا۔
Top