Tafseer-al-Kitaab - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔
[8] اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مہر لگا دی تھی اس لئے انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کرلیا تو اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اللہ نے انسان کو نیکی و بدی کا امتیاز بخشا ہے اور ساتھ ہی اس کو اختیار دیا ہے کہ چاہے وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کا۔ اگر وہ نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو نیکی کی راہ میں ترقی کی توفیق ملتی ہے اور اگر وہ بدی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا دل برائی کا رنگ پکڑنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ یہ رنگ اس پر اس قدر غالب ہوجاتا ہے کہ پھر اس کے اندر نیکی کی رمق باقی ہی نہیں رہتی۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر اللہ کے قانون کے تحت آدمی کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ اور کیونکہ مہر لگانے کا قانون اللہ ہی کا بنایا ہوا ہے اس لئے اس قانون کے تحت مہر لگنے کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اس طرح کی مثالیں قرآن میں متعدد مقامات پر ملیں گی جہاں اللہ نے بعض افعال اپنی طرف منسوب کئے ہیں لیکن ان سے مقصود ان افعال کی نسبت نہیں ہے بلکہ ان قوانین کی نسبت ہے جن کے تحت وہ افعال واقع ہوتے ہیں۔
Top