Tafseer-al-Kitaab - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور (دیکھو، ) ہم نے زبور میں (پندو) نصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
[61] آسمانی کتاب کا نام جو داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی۔ [62] مطلب یہ ہے کہ دوسری تخلیق میں، جس کا ذکر اس سے پہلے کی آیت میں ہوا ہے، زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہوجاتا ہے اور زمین کی وراثت مشیت الٰہی کے تحت مومن اور کافر، فرماں بردار اور نافرمان سب کو ملتی ہے مگر جزائے اعمال کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر۔ اس کے برعکس آخرت میں اللہ اپنے بندوں میں سے صرف مومنین صالحین کو زمین کا وارث بنائے گا امتحان کے طور پر نہیں بلکہ اس نیک رویے کی ابدی جزا کے طور پر جو انہوں نے دنیا میں اختیار کیا تھا۔ زبور میں بھی جو اس وقت موجود ہے نیکی اور راست بازی اور توکل کی نصیحت کے بعد ارشاد ہوتا ہے : '' صادقین زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے '' یہاں بھی راست باز لوگوں کے لئے زمین کی دائمی وارثت کا ذکر ہے اور یہ ذکر زیادہ صریح الفاظ میں سورة زمر آیات 74-73 میں ارشاد ہوا ہے۔
Top