Tafseer-al-Kitaab - Al-Anbiyaa : 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ١ؕ وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً١ؕ وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ
كُلُّ نَفْسٍ : ہر جی ذَآئِقَةُ : چکھنا الْمَوْتِ : موت وَنَبْلُوْكُمْ : اور ہم تمہیں مبتلا کرینگے بِالشَّرِّ : برائی سے وَالْخَيْرِ : اور بھلائی فِتْنَةً : آزمائش وَاِلَيْنَا : اور ہماری ہی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر آؤگے
ہر جاندار (ایک نہ ایک دن) موت (کا مزا) چکھنے والا ہے۔ (لوگو، ) ہم تمہیں اچھے اور برے حالات (دونوں) میں (ڈال کر) آزماتے ہیں اور (پھر بالآخر) تم (سب) ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤگے۔
[23] مشرکین رسول اکرم ﷺ کی باتیں سن کر کہتے تھے کہ ساری دھوم محض اس شخص کے دم تک ہے۔ یہ دنیا سے رخصت ہوا تو پھر کچھ نہیں۔ تو اس کا جواب دیا کہ کون ایسا ہے جس پر موت کبھی نہ طاری ہو۔ اگر رسول کی موت کے تصور سے ہی انھیں اپنا دل ٹھنڈا کرنا مقصود ہو تو خوشی کا ہے کی۔ کیا تم کبھی نہیں مرو گے اور قیامت کے بوریے سمیٹو گے ؟ جب تم کو بھی آگے پیچھے مرنا ہے تو پیغمبر کی وفات پر خوش ہونے کا کیا موقع ہے۔ [24] یہاں انسان کے لئے تین قانون بیان کر دئیے : (1) ہر ذی حیات کے لئے جلد یا بدیر موت لازمی ہے۔ (2) انسان جب تک زندہ رہے گا اس کا امتحان برابر ہوتا رہے گا۔ (3) ہر انسان کے لئے اللہ کے حضور میں واپس جاکر اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہے۔
Top