Tafseer-al-Kitaab - Al-Hajj : 55
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ
وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ رہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ : میں مِرْيَةٍ : شک مِّنْهُ : اس سے حَتّٰى : یہاں تک تَاْتِيَهُمُ : آئے ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک اَوْ يَاْتِيَهُمْ : یا آجائے ان پر عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَقِيْمٍ : منحوس دن
اور (یاد رکھو، ) جو منکر ہیں وہ اس (قرآن) کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت اچانک ان (کے سروں) پر آجائے یا ایک منحوس دن کا عذاب ان پر آ نازل ہو۔
[42] اصل میں لفظ عقیم استعمال ہوا ہے جس کے معنی بانجھ کے ہیں۔ دن کو بانجھ کہنے کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ وہ ایسا منحوس دن ہو جس میں کوئی تدبیر کارگر نہ ہو اور ہر کوشش الٹی پڑے۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسا دن ہو جس کے بعد رات دیکھنی نصیب نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں مراد ہے وہ دن جس میں کسی قوم کی بربادی کا فیصلہ ہوجائے۔
Top